باقی تمام احادیث پر بھی پڑے گا، اس لئے یہ انکار باعتبار نتائج آسان نہیں بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
امام رازی رحمہ اللہ کے بعد علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کا انکار کیا ہے۔ ان علماء کی رائے سے موافقت رکھنے والے علماء کا خیال یہ ہے کہ چونکہ یہ اخبار آحاد ہیں اس لئے جرأت کے ساتھ کہہ دینا چاہیے کہ اگرچہ یہ روایتیں صحیحین کی ہیں اور اس لئے مشہور کی حد تک پہنچ گئی ہیں مگر راوی کو ان روایات میں سخت مغالطہ ہوا ہے، لہٰذا ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لئے کہ ایک نبی کی جانب کذب کی نسبت کے مقابلہ میں راویوں کی غلطی کا اعتراف بدرجہا بہتر اور صحیح طریق کار ہے۔
متأخرین علماء میں مشہور مصری عالم عبدالوہاب نجار نے ’’قصص الانبیاء‘‘ میں امام رازی رحمہ اللہ کی رائے کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے کافی شرح و بسط کے ساتھ لکھا ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام و سارہ کے واقعہ سے انکار کیا ہے۔
جناب حمید الدین فراہی صاحب بھی ’’مقدمہ نظام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ ایسی روایات تک کو قبول کر لیتے ہیں جو نصوص قرآنی کی تکذیب کرتی ہیں، مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ بولنے کی روایت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وحی قرآن پڑھ دینے کی روایت۔‘‘ [1]
امام رازی، عبدالوہاب نجار اور حمید الدین فراہی صاحبان وغیرہ کی اتباع میں بعض دوسرے علمائے حنفیہ نے بھی ان صحیح روایات کو رد کرنے کے لئے انتہائی مضحکہ خیز اور لایعنی احتمالات پیش کیے ہیں۔ ذیل میں ایسی ہی کوششوں سے متعلق بعض مشہور حنفی علماء کی کتب سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:
جناب حفظ الرحمٰن سیوھاروی صاحب لکھتے ہیں:
’’لہٰذا ازبس ضروری ہے کہ ایسی روایت یا روایت کے جملہ کو جو اپنی لفظی اور ظاہری تعبیر میں مسلم عقیدہ کے بارے میں ایہام پیدا کرتا ہو صحیح اور مقبول، مشہور اور متواتر روایات حدیثی کے انکار پر حجت و دلیل قائم نہ کر لیں اور اس کو انکار حدیث کا ذریعہ بنا کر قرآن عزیز کو ایک ایسی اجنبی کتاب نہ بنا دیں جس کی تعبیر کے لئے نہ کسی پیغمبر کے تفسیری اقوال ہیں اور نہ تشریحی اعمال – البتہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تمام احادیث رسول روایت باللفظ نہیں ہیں بلکہ بعض روایات بالمعنی ہیں یعنی یہ نہیں ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی الفاظ زبان مبارک سے فرمائے ہوں راوی نے ایک ایک لفظ اسی طرح نقل کر دیا ہو بلکہ معنی و مفہوم کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اس روایت کے الفاظ راوی کی اپنی تفسیر ہوتے ہیں، پس ان اہم اور بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنے کے بعد اب مسئلہ زیر بحث کو اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ بخاری کی احادیث کو بلاشبہ تلقی بالقبول حاصل
|