ہے اور یہ بھی تسلیم کہ یہ کتاب جرح و نقد پر کسے جانے اور پرکھے جانے کے بعد امت میں شہرت و قبولیت کا وہ درجہ رکھتی ہے کہ کتاب اللہ کے بعد اس کو اصح الکتب کہا جاتا ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے اس کی کسی روایت میں راوی سے لفظی تعبیر میں سقم پیدا ہو گیا ہو اور روایت اگرچہ اپنے سلسلہ سند اور مجموعہ متن کے اعتبار سے اصولاً قابل تسلیم ہو مگر اس جملہ کی تعبیر کو سقیم سمجھا جائے اور اصل روایت کو رد کرنے کے بجائے صرف اس کے سقم کو ظاہر کر دیا جائے – بغیر کسی شک اور تردد کے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق یہ (طویل روایات) روایت بالمعنی کی قسم میں داخل ہیں، اور یہ دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا کہ الفاظ اور جملوں کی پوری نشست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق ترجمان کے نکلے ہوئے الفاظ اور جملوں کی نشست ہے بلکہ آپ کے مفہوم اور معنی کو ادا کرتی ہیں، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ (ہر دو روایات میں) بیان کردہ واقعات کی صحت کے باوجود زیر بحث الفاظ سلسلہ سند کے کسی راوی کے اختلال لفظی کا نتیجہ ہوں اور اس سے یہ تعبیری سقم پیدا ہو گیا ہو۔ خصوصاً جب کہ اس کے لئے یہ قرینہ بھی موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام و سارہ علیہا السلام اور شاہ مصر کا یہ واقعہ توراۃ میں بھی مذکور ہے اور وہاں اس قسم کے غیر محتاط جملے بکثرت موجود ہیں، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ راوی سے اس اسرائیلی روایت اور صحیح روایت کے درمیان تعبیر میں خلط ہو گیا ہو اور اس لئے اس نے معاملہ کی تعبیر زیر بحث الفاظ سے کر دی ہو۔‘‘ [1]
عبدالوہاب نجار، حفظ الرحمٰن سیوہاروی، ابو الکلام آزاد، حمید الدین فراہی، شبلی نعمانی، امین احسن اصلاحی، سید ابو الاعلی مودودی اور حبیب الرحمان صدیقی کاندھلوی صاحبان وغیرہم نے بھی اس صحیح حدیث کا انکار کیا ہے۔ یہاں ان تمام حضرات کے طویل اقتباسات نقل کرنے اور ان پر تبصرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا ذیل میں ہم صرف جناب سید ابو الاعلی مودودی اور حبیب الرحمان صدیقی کاندھلوی صاحبان کے اعتراضات نقل کرتے ہوئے ان پر تبصرہ کریں گے۔ جناب شبلی نعمانی صاحب کے اعتراضات کے جواب کے لئے ’’حسن البیان‘‘ مؤلفہ جناب محمد عبدالعزیز محمدی رحیم آبادی رحمہ اللہ (م 1338ھ) [2]وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ جناب امین احسن اصلاحی کے اعتراض کا جائزہ ان شاء اللہ آگے باب ہشتم (’’حدیث کے غث و سمین میں امتیاز کے لئے اصلاحی صاحب کی اساسی کسوٹیوں کا جائزہ‘‘) کے تحت مختصراً پیش کیا جائے گا۔ باقی حضرات کے اعتراضات کے جوابات بھی ان بحثوں میں آ جاتے ہیں۔
جناب سید ابو الاعلی مودودی صاحب نے اس حدیث پر ’’رسائل و مسائل‘‘ اور ’’تفہیم القرآن‘‘ میں کلام کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
|