Maktaba Wahhabi

256 - 360
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا۔ بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجت قائم کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لئے کہی تھی کہ وہ لوگ جواب میں خود اقرار کریں کہ ان کے یہ معبود بالکل بے بس ہیں اور ان سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی، ایسے موقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلاف واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ وہ خود جھوٹ کی نیت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اسے جھوٹ سمجھتے ہیں، کہنے والا اسے حجت قائم کرنے کے لئے کہتا ہے اور سننے والا بھی اسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ بدقسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’جھوٹ‘‘ تو یہ ہے (کہ اس بڑے بت نے کیا ہے) اور دوسرا جھوٹ سورہ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول [إِنِّي سَقِيمٌ]اور تیسرا ’’جھوٹ‘‘ ان کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے۔ جس کا ذکر قرآن میں نہیں۔ بلکہ بائبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کی چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کو – لے کر پورے ذخیرہ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابل اعتماد ہوں اور نہ فن حدیث کے نقطہ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کا ملتزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابل اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابل اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لئے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اور اگر متن میں کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ حدیث جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین ’’جھوٹ‘‘ بیان کئے گئے ہیں صرف اسی وجہ سے قابل اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے بلکہ اس بنا پر غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محل نظر ہیں۔ ان میں سے ایک ’’جھوٹ‘‘ کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول پر لفظ ’’جھوٹ‘‘ کا اطلاق نہیں کر سکتا۔ کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے – معاذ اللہ – اس سخن شناسی کی توقع کریں۔ رہا [إِنِّي سَقِيمٌ]والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں
Flag Counter