Maktaba Wahhabi

257 - 360
ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی بھی شکایت ان کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی یہ کہہ دے گا کہ یہ ہرگز واقعہ نہیں ہو سکتا۔ قصہ اس وقت کا بتایا جاتا ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں۔ بائبل کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر 75 اور حضرت سارہ کی عمر 65 برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان تو بچ جائے (پیدائش باب 12) حدیث کی زیر بحث روایت میں تیسرے ’’جھوٹ‘‘ کی بنیاد اسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے پر صرف اس لئے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اسی طرح کی افراط پسندیاں پھر معاملہ کو بگاڑ کر اس تفریط تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرین حدیث کر رہے ہیں۔‘‘ [1] ایک اور مقام پر جناب ابو الاعلی مودودی صاحب رقمطراز ہیں: ’’میں نے وہ دلائل بھی بیان کر دئیے ہیں جن کی بنا پر میں اس روایت کے مضمون کی صحت تسلیم کرنے میں متأمل ہوں۔ اگر میرے ان دلائل کو دیکھ کر آپ کا اطمینان ہو جائے تو اچھا ہے اور نہ ہو تو جو کچھ آپ صحیح سمجھتے ہیں اسی کو صحیح سمجھتے رہیں۔ اس طرح کے معاملات میں اگر اختلاف رہ جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے؟ آپ کے نزدیک حدیث کا مضمون اس لئے قابل قبول ہے کہ وہ قابل اعتماد سندوں سے نقل ہوئی ہے اور بخاری، مسلم، نسائی اور متعدد دوسرے اکابر محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔ میرے نزدیک وہ اس لئے قابل قبول نہیں ہے کہ اس میں ایک نبی کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور یہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے کہ چند راویوں کی روایت پر اسے قبول کر لیا جائے – مگر میں اس روایت کے ثقہ راویوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹی روایت نقل کی ہے بلکہ صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔ اس لئے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ محض سند کے اعتماد پر ایک ایسے
Flag Counter