بن حنبل رحمہ اللہ کو اس سوال کے بارے میں کہ آیا سنت کتاب اللہ پر حاکم کا درجہ رکھتی ہے یا نہیں؟ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کرتا، البتہ سنت قرآن کی تفسیر ہے اور قرآن کو صرف قرآن ہی منسوخ کر سکتا ہے۔‘‘
اس موقف کے بعض دوسرے مشہور علماء میں علامہ ابو الفرج مالکی رحمہ اللہ، ابو اسحاق شیرازی، قاضی ابو طیب اور صدر الشریعہ حنفی وغیرھم کا شمار ہوتا ہے، چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ، علامہ ابو الفرج مالکی رحمہ اللہ کے متعلق بیان کرتے ہیں،
’’وہ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرح کتاب اللہ کو سنت کے ذریعہ منسوخ کرنے کے منکر تھے۔‘‘ [1]
علامہ ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’ہمارے نزدیک سماعی طور پر یہ جائز نہیں ہے کہ بذریعہ سنت کتاب اللہ کو منسوخ کیا جائے۔ ہمارے اکابرین شافعیہ نے سمعی و عقلی ہر دو طرح اس کا انکار کیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ سمعی طور پر ایسا اس لئے درست نہیں ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: [مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا]لیکن سنت نہ تو قرآن کے مثل ہے اور نہ ہی اس سے بہتر۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ سنت کی تلاوت پر ثواب نہیں ملتا جس طرح کہ قرآن کی تلاوت پر ملتا ہے – اور نہ ہی سنت کے الفاظ میں قرآن کے الفاظ کی طرح اعجاز موجود ہے۔ پس یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سنت نہ اعجاز میں قرآن کے مثل ہے اور نہ ہی ثواب تلاوت میں۔‘‘ [2]
قاضی ابو طیب رحمہ اللہ نے ’’الکفایۃ‘‘ کی شرح میں سنت کے ذریعہ قرآن کے نسخ کا انکار کرتے ہوئے یہ سبب بیان کیا ہے:
’’لأن القرآن يقيني فلا ينسخه مظنون كالحديث‘‘[3]یعنی ’’کیونکہ قرآن یقینی ہے پس اس کو حدیث کی طرح کوئی مظنون شئ منسوخ نہیں کر سکتی۔‘‘
علامہ صدر الشریعہ حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[4]’’امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک کتاب اللہ کو سنت کے ذریعہ اور سنت کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ کرنا فاسد ہے کیونکہ اگر کتاب اللہ کو بذریعہ سنت منسوخ کیا جائے تو غیر مسلم یہ کہیں گے آں صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کلام کو وحی کی صورت میں پیش کیا تھا خود ہی اس کی تردید کر دی اور اگر سنت کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ کیا جائے تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے جس کو نبی مقرر فرمایا تھا خود ہی اس کی تکذیب کر دی، پس اس پر ایمان لانا واجب نہ رہا – لہٰذا بقول امام شافعی رحمہ اللہ کتاب و سنت میں سے ایک دوسرے کو منسوخ کرنے سے بہتر ہے کہ
|