اس سلسلہ میں پہلا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اخبار کی اس تیسری قسم کا تذکرہ جناب اصلاحی صاحب نے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے حوالہ سے ضرور کیا ہے لیکن نہ معلوم کیوں آں رحمہ اللہ کے ’’وقوف‘‘ والے فیصلہ کو نقل کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف اپنی رائے کو ہی بیان کیا ہے۔
دوسری قابل اعتراض چیز یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی بیان کردہ اخبار کی اس تیسری قسم سے کیوں کر اتفاق کر لیا؟ جب کہ فی الواقع صحیح احادیث نبوی کا باہم متصادم و متناقض ہونا محض ایک وہم ہے۔ یہ وہم عموما ان لوگوں کو ہی لاحق ہوا کرتا ہے جن کے سامنے علوم حدیث کی پوری تفصیلات نہیں ہوا کرتی ہیں۔ اگر کسی صحیح حدیث میں ایک بات کا اثبات ہو اور دوسری میں اسی بات کی نفی مذکور ہو تو بظاہر یہ دونوں حدیثیں باہم دگر متصادم نظر آئیں گی لیکن یہ اختلاف و تعارض صرف ان کی ظاہری شکل میں ہو گا، کیونکہ معنوی اعتبار سے احادیث میں نہ تضاد پایا جاتا ہے اور نہ تناقض۔ اس طرح کے اختلافات کی نوعیت مندرجہ ذیل آیات کے ظاہری اختلافات سے تقریباً ملتی جلتی ہے:
1۔ قرآن کریم میں ایک جگہ مذکور ہے: [وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ][1] یعنی ’’وہ ایک دوسرے پر سوال کرتے ہوئے متوجہ ہوں گے‘‘ جبکہ دوسرے مقام پر وارد ہے: [فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ][2]یعنی ’’اس دن آپس میں وہ ایک دوسرے سے کوئی سوال نہ کریں گے۔‘‘
2۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے: [فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ [٩٢]عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ][3] یعنی ’’تیرے رب کی قسم ہم ان سب سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کریں گے جو کہ وہ کرتے رہے ہیں۔‘‘ مگر دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: [وَلَا يُسْـَٔلُ عَن ذُنُوبِهِمُ ٱلْمُجْرِمُونَ][4] یعنی ’’مجرموں سے ان کے گناہوں کے متعلق نہ پوچھا جائے گا۔‘‘
3۔ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ مشرکین قیامت کے دن اپنے مشرکانہ عقائد سے اظہار براءت کرتے ہوئے قسم کھا کر کہیں گے: [وَٱللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ][5] یعنی ’’قسم ہمارے رب اللہ عزوجل کی، ہم مشرک نہ تھے۔‘‘ جب کہ ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا گیا ہے: [وَلَا يَكْتُمُونَ ٱللَّـهَ حَدِيثًا][6] یعنی ’’وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھ سکیں گے۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’جامع صحیح‘‘ میں اس طرح کی آیات کو جو بظاہر متصادم معلوم ہوتی ہیں، نقل کرنے کے بعد ان کے مابین تطبیق و رفع تعارض کی تفصیلات کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے – پس معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن کریم کی مختلف آیات میں نظر آنے والا تعارض حقیقی
|