اجماع کیا ہو، (د) یا وہ خبر امور دین میں سے کسی ایسے امر سے متعلق ہو کہ جس کا تمام مکلفین (پابند شریعت) کو معلوم ہونا لازم ہے لیکن باوجود اس کے وہ خبر حسب ضرورت موجب علم نہ ہو، (ہ) یا وہ خبر کسی بڑے معاملہ (امر جسیم) یا بڑی خبر (نبأ عظیم) سے متعلق ہو، مثال کے طور پر اہل اقلیم کا اہل و عیال کے ساتھ کسی خلیفہ وقت سے خروج کرنے کی خبر وغیرہ – چونکہ یہ تمام چیزیں مخصوص و محدود طریقے پر ورود کے باعث موجب علم نہیں ہیں، لہٰذا کسی خبر میں ان امور کی موجودگی اس کے فساد پر دلالت کرتی ہے—الخ۔‘‘ [1]
جناب اصلاحی صاحب نے اس ضمن میں بھی صاحب ’’الکفایۃ‘‘ کے بیان کی ترجمانی کے وقت بعض نہایت اہم چیزوں کو حذف کر دیا ہے مثلاً (الف) کے تحت یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ جن اخبار کو عقل رد کرتی ہو وہ کن بنیاد پر رد کرے؟ اسی طرح کسی خبر کی تردید پر اجماع امت کا تذکرہ محذوف ہے۔ اس کے علاوہ محترم اصلاحی صاحب نے یہاں خواہ مخواہ ’’احناف کے نزدیک عموم بلوی کی شکل میں اخبار آحاد کو کوئی خاص اہمیت‘‘ نہ دینے کا تذکرہ چھیڑ کر خلط مبحث کی کوشش کی ہے، لیکن چونکہ یہ اس موضوع پر تفصیلی بحث کرنے کا موقع نہیں ہے لہٰذا ہم اس بیجا تذکرہ پر اپنے تبصرہ کو باب ششم (’’اخبار آحاد کی حجیت‘‘) کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔
4۔ اخبار کی تیسری قسم کہ جس کی صحت پر فساد معلوم نہ ہو (الذي لا يعلم صحته من فساده) [2]کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایسی صورت میں کسی خبر پر قطعی طور پر صدق یا کذب کا حکم لگانے سے رک جانا ہی واجب ہے۔ اس تیسری قسم میں صرف وہ اخبار داخل ہیں جن کے متعلق یہ فیصلہ نہ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنا یا ایسا ہونا جائز ہے یا نہ ایسا کرنا یا ایسا نہ ہونا جائز ہے، مثال کے طور پر اصحاب الحدیث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام شریعت کے متعلق مختلف اور متضاد نوعیت کی اخبار نقل کی ہوں، تو ان کے بارے میں وقوف واجب ہے۔ جب یہ صورت حال درپیش ہو کہ ان متضاد اخبار میں سے کسی کے صدق یا کذب کو جاننے کا کوئی ذریعہ و طریقہ موجود نہ ہو تو ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک امر کے حق میں یا دوسرے امر کے خلاف قطعی طور پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا، البتہ ان میں سے کسی ایک امر کے اولی ہونے کا امکان ہوتا ہے – الخ۔‘‘ [3]
|