جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے استاذ حدیث علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں اس بارے میں خوب کھل کر بحث فرمائی ہے اور فریقین کے دلائل کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ اگر محترم اصلاحی صاحب نے اپنے استاذ کی اس کتاب کی طرف ہی رجوع فرما لیا ہوتا تو ہرگز آمین بالسر کی مسنونیت کے قائل نہ رہتے۔
علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے صحابہ و تابعین کا جہراً آمین کہنا ثابت ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اس کے برخلاف صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کے متعلق صحیح سند کے ساتھ اسرار بالتامین ثابت نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بھی آمین بالجہر کہنے کا انکار ثابت ہے، پس حنفیہ کے طریق پر جہر بالتامین پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم ثابت ہوا۔‘‘ [1]فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔
مزید تفصیلات کے لئے علمائے حنفیہ کے نزدیک معتبر کتاب ’’نصب الرایہ لأحادیث الھدایۃ‘‘[2]’’فتح الباری‘‘[3]للحافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، ’’عون المعبود‘‘[4]لابی الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اور ’’تحفۃ الأحوذی‘‘[5]للمبارکفوری وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
کیا اب بھی جناب اصلاحی صاحب اپنے اس دعویٰ پر قائم رہنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ: ’’ان میں سے ہر ایک کے سنت ہونے کے امکانات و قرائن، بلکہ دلائل موجود ہیں‘‘، ’’ان میں سے کسی کو بھی سنت سے خارج نہیں کیا جا سکتا‘‘ اور ’’ان کے سنت ہونے سے انکار کی گنجائش کسی طرح بھی نہیں نکل سکتی۔‘‘؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو ہم آں محترم کے مزید دلائل کے جائزہ کے لئے چشم براہ رہیں گے۔
اختتام پر محترم اصلاحی و مودودی صاحبان کے مابین فکری یکسانیت واضح کرنے کے لئے جناب سید ابو الاعلی مودودی صاحب کے دو اقتباسات بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں، فرماتے ہیں:
’’—ہاتھ کہاں باندھے جائیں، باندھے جائیں یا کھولے جائیں، آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ، امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں وغیرہ۔ ان جزوی امور میں جتنے بھی مختلف مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے پاس یہ دلیل رکھتا ہے کہ اس کا طریقہ کسی نہ کسی سند کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور اپنی سند پیش کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ کس کی سند ضعیف ہے اور کس کی قوی، دیکھنا یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سند تو ہے۔ کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ میں حضور کے سوا کسی
|