صریحہ کے خلاف وارد ہوا ہے لہٰذا ناقابل التفات ہے۔ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ ’’السعایۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’أما أثر النخعي و نحوه فلا يوازي الروايات المرفوعة‘‘ [1]
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول کو اس وجہ سے بھی حجت قرار نہیں دیا جا سکتا کہ محدثین کا اصول ہے کہ ’’تابعی کا مفرد عمل (یا قول) حجت نہیں ہوتا، خواہ اس کے خلاف کوئی چیز وارد نہ بھی ہو۔‘‘ [2] اور یہاں تو ان کے قول کے خلاف متعدد احادیث صحیحہ صریحہ مرفوعہ وارد ہیں۔
اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک قول بھی پیش کیا جاتا ہے، جس میں مذکور ہے کہ ’’تین کلمات کو امام خفیہ کہے: تعوذ، تسمیہ اور آمین –‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول بطریق ابو حمزہ عن ابراہیم النخعی عن علقمہ و اسود عنہ مروی ہے۔ لیکن اس سند میں راوی ابو حمزہ (جو میمون الأعور القصاب کوفی ہے)، محدثین کے نزدیک ضعیف، متروک الحدیث اور ناقابل احتجاج ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ ’’ثقہ نہیں ہے‘‘، امام احمد نے اسے ’’متروک الحدیث‘‘، سعدی و دارقطنی نے ’’ضعیف الحدیث‘‘ اور بخاری رحمہ اللہ نے ’’ضعیف، ذاھب الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’لا يكتب حديثه‘‘ آپ ہی کا ایک اور قول ہے کہ ’’ليس بشيء‘‘ (یعنی ڈھیلہ کے برابر بھی نہیں ہے) ابوبکر الخطیب رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’تقوم به حجة‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی ابو حمزہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [3] غرض یہ چیز بھی قابل احتجاج نہیں ہے۔
آمین بالسر کے درست نہ ہونے کی ایک دلیل امام بیہقی رحمہ اللہ کی یہ روایت بھی ہے:
’’عَنْ خالد بن أبي أيوب عن عطاء قَالَ أدركت مائتين مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيْ صلي اللّٰه عليه وسلم فِيْ هٰذا الْمَسْجِد إِذَا قَالَ الْإِمَام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ سمعت لهم رجة بآمين ‘‘
’’خالد بن ابی ایوب حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اس مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صد صحابہ کو پایا ہے۔ جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ کہتا تو اس وقت میں ان سب صحابہ کی بلند آواز میں آمین کی گونج سنتا تھا۔‘‘
|