Maktaba Wahhabi

211 - 360
وَلَا الضَّالِّينَ قال آمين رافعاً بِهٖ صوته‘‘ 4۔ رفع صوت کے بارے میں العلاء بن صالح اور محمد بن سلمة بن كهيل نے عن سلمة، سفیان ثوری کی متابعت کی ہے۔ 5۔ ’’خفض صوته‘‘ کے بارے میں شعبہ کی کسی اور نے متابعت نہیں کی ہے۔ پس یہ تمام امور اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شعبہ کی اس بارے میں روایت جو کہ آمین بالسر کی اکلوتی دلیل ہے ’’ضعیف‘‘ و ’’شاذ‘‘ ہے لہٰذا اس سے اسرار بآمین پر استدلال کرنا کسی طرح درست نہیں ہے، واللہ اعلم۔ جہاں تک علامہ طحاوی رحمہ اللہ کے بیان کردہ اثر: ’’عن أبي وائل قَالَ كَانَ عمرو وَ علي لَا يجهر ان ببِسْمِ اللّٰه الرَّحْمَانِ الرَّحِيْم وَلَا بِالتعُوْذ وَلَا بِآمِيْن‘‘ کا تعلق ہے تو یہ اثر انتہاء درجہ کا ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی سعید بن مرزبان بقال ہے جس کے متعلق یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ليس بشيء ولا يكتب حديثه‘‘، عمرو بن علی نے ’’متروک الحدیث‘‘، امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’منکر الحدیث‘‘ اور امام عجلی و نسائی نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ولا أستحل أن يروي عنه‘‘ فلاس نے اسے ترک کیا ہے اور فرماتے ہیں: ’’لا يكتب حديثه‘‘ امام ابن الجوزی نے ’’التحقیق‘‘ میں اسے مجروح قرار دیا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’کثیر الوہم اور فحش الخطاء تھا۔‘‘ لیکن ابو اسامہ کا قول ہے کہ ’’ثقہ تھا۔‘‘ ابو زرعہ رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’صدوق مدلس‘‘ بتایا ہے لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ ’’ضعیف، اور تدلیس کے لئے مشہور تھا، امام احمد، امام ابو حاتم اور امام دارقطنی وغیرہم نے اس میں تدلیس کے وصف کی نشاندہی کی ہے‘‘ –[1]لہٰذا یہ اثر ناقابل استدلال قرار پایا۔ اسی طرح ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اس قول سے بھی استدلال درست نہیں کہ: خَمْس يخفيهن الإِمَام سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَ بِحَمْدِكَ وَالتَّعُوذ وَ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ وَ آمِيْن وَ اَللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد [2] (یعنی امام کو پانچ کلمات آہستہ پڑھنے چاہئیں: ’’سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَ بِحَمْدِكَ ، تعوذ، بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ، آمين اور اَللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْد‘‘ – کیونکہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا یہ قول احادیث مرفوعہ صحیحہ
Flag Counter