النبي صلي اللّٰه عليه وسلم فَلَمَّا قَالَ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ آمِيْن رافعاً بِهٖ صوته‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ یہ روایت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کتاب ’’المعرفۃ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’اس روایت کی سند صحیح ہے اور شعبہ رحمہ اللہ خود کہا کرتے تھے کہ سفیان ثوری حدیث کے مجھ سے زیادہ بہتر حافظ ہیں۔ امام یحییٰ القطان اور امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی روایت میں شعبہ رحمہ اللہ سفیان ثوری کی مخالفت کریں تو سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول درست مانا جائے گا – الخ [1]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ’’اعلام الموقعین عن رب العالمین‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’امام بیہقی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ میں اس بارے میں اہل علم حضرات کے مابین کسی اختلاف کو نہیں جانتا کہ اگر سفیان ثوری اور شعبہ آپس میں کسی حدیث کے متعلق اختلاف کریں تو سفیان ثوری کا قول لائق ترجیح ہو گا۔ یحییٰ بن سعید کا قول ہے کہ میرے نزدیک شعبہ سے زیادہ محبوب کوئی شخص نہیں اور نہ ہی میرے نزدیک کوئی شخص ان کا مخالف یا دشمن ہے لیکن اگر سفیان ثوری ان کی روایت کی مخالفت کریں تو میں سفیان ثوری کے قول کو لیتا ہوں – الخ۔‘‘
امام دارقطنی رحمہ اللہ اپنی ’’سنن‘‘[2]میں شعبہ کی مذکورہ حدیث تخریج فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہ بیان کیا گیا ہے کہ شعبہ کو اس بارے میں وہم ہوا ہے، کیونکہ سفیان ثوری اور محمد بن مسلمہ بن کھیل وغیرہما نے سلمہ ہی سے روایت کرتے ہوئے یہ بیان کیا ہے: ’’ورفع صوته بآمين‘‘ یعنی (اور آمین کے ساتھ اپنی آواز کو بلند کیا) اور یہی صواب ہے۔‘‘ [3]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ التلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں کہ:
’’وقد رجحت رواية سفيان بمتابعة اثنين له بخلاف شعبة فلذلك جزم النقاد بأن روايته أصح‘‘ ان تمام مباحث کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ شعبہ نے اپنا قول ’’خفض بها صوته‘‘، سفیان کی روایت کے خلاف بیان کیا ہے اور اس میں خطا کی ہے۔
2۔ محدثین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اگر سفیان ثوری اور شعبہ کسی روایت کے بارے میں باہم اختلاف کریں تو سفیان ثوری رحمہ اللہ کے قول کو قبول کیا جائے گا۔
3۔ خود شعبہ رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کے موافق یوں روایت کی ہے: ’’فَلَمَّا قَالَ
|