ان چند مثالوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی صحیح السند حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ اگر کہیں قرآنی آیت اور حدیث کے درمیان بظاہر تعارض محسوس بھی ہوتا ہے تو معمولی غوروفکر سے اس کو رفع کیا جا سکتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ قرآنی آیات کے باہمی تعارض و اختلاف کو بآسانی دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اوپر بیان کی گئی تیسری اور چوتھی اقسام کی احادیث جناب خالد مسعود صاحب کی تقسیم کے اعتبار سے حدیث کی چوتھی اور پانچویں قسم ہیں جن کے متعلق آں جناب فرماتے ہیں کہ یہ ’’آخری دونوں قسمیں فرضی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں کیونکہ ان سے قرآن کا جلی یا خفی نسخ لازم آتا ہے۔‘‘ یہاں ہم آں موصوف سے یہ پوچھیں گے کہ ان دونوں اقسام کی احادیث کے ’’فرضی‘‘ اور درحقیقت ان کے عدم وجود پر آں محترم کے مطلع ہونے کا ذریعہ کیا ہے؟ پھر آں جناب کے پاس ایسا کون سا پیمانہ ہے جس سے ناپ کر یقینی طور پر یہ علم ہو سکے کہ کتاب اللہ سے زائد احکام والی فلاں احادیث کا قرآن متحمل ہے اور فلاں کا نہیں؟ نیز یہ کہ جب من جانب اللہ واضح طور پر اطاعت الٰہی کے ساتھ مکمل اطاعت رسول کا حکم بھی دیا گیا ہے، خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم کتاب اللہ میں صراحتاً مذکور ہو یا نہ ہو، تو ان احادیث کے متعلق اطاعت رسول سے انکار آخر کس بنیاد پر ہے؟ جب یہ بات بھی ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح و مبین تھے تو جس آیت کے جو معنی بھی آں صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرمائیں اسے بلا رد و قدح اور بلا چوں و چرا قبول کر لینے میں یہ اعتراض کیسا کہ جو حکم قرآن سے زائد یا بظاہر مخالف نظر آئے وہ فرضی ہے یا درحقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے؟ ایک مزید سوال یہ بھی ہے کہ جب ایک مومن سے دین و ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ جس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیں اسے لے لے اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز آ جائے اور جس معاملہ میں آپ کوئی فیصلہ فرما دیں اسے بخوشی قبول کرنے میں کسی قسم کا پس و پیش نہ کرے تو پھر ان اضافی احکام پر مبنی یا بظاہر خلاف قرآن احادیث سے انکار کرنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آیا صحیح احادیث نبوی سے قرآن کا نسخ ہو سکتا ہے یا نہیں تو اس کا تفصیلی جواب ان شاء اللہ آگے مناسب مقام پر پیش کیا جائے گا۔ خلاصہ کلام یہ کہ بعض احادیث اپنے مضمون کے اعتبار سے بعض اوقات قرآن کے ظاہری مفہوم کے خلاف نظر آتی ہیں، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ صرف قرآن سے موافقت رکھنے والی احادیث کو ہی قبول کیا جائے، اور باقی کو رد کیا جائے کیونکہ یہ خیال امت کے متفقہ تعامل، کہ جسے قرآن نے سبیل المومنین بتایا ہے، سے یکسر انحراف ہو گا جس پر عذاب جہنم کی وعید شدید بیان کی گئی ہے۔ اگر صرف قرآن سے موافقت رکھنے والی احادیث کو ہی قبول کیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیونکہ جب قرآن میں ان احادیث کے ہم معنی احکام موجود ہیں تو پھر ان احادیث کو |