دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال جواب کرنے لگیں گے۔‘‘ اسی طرح [وَلَا يَكْتُمُونَ اللّٰه حَدِيثًا][1] یعنی ’’اور اللہ تعالیٰ سے کسی بات کا اخفاء نہ کر سکیں گے۔‘‘ جبکہ ایک دوسری آیت میں ہے کہ [وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ][2] یعنی ’’قسم اللہ کی اے ہمارے رب! ہم مشرک نہ تھے۔‘‘ (اس آیت میں مشرکین کے کتمان کا تذکرہ ہے) اور [أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا [٢٧]رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا [٢٨]وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا [٢٩]وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا][3]یعنی ’’(بھلا تمہیں دوسری بار پیدا کرنا زیادہ سخت ہے) یا آسمان کا کہ جس کو اللہ نے بنایا، اس کی سقف کو بلند کیا اور اس کو درست بنایا اور اس کی رات کو تاریک بنایا اور اس کے دن کو ظاہر کیا اور اس کے بعد زمین کو بچھایا۔‘‘ اس آیت میں آسمان کو زمین سے قبل پیدا فرمانے کا ذکر ہے جبکہ [ قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ [٩]وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ [١٠]ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ][4] یعنی ’’آپ فرمائیے کیا تم لوگ ایسے اللہ کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو روز میں پیدا کیا، اور تم اس کے شریک ٹھہراتے ہو، یہی سارے جہانوں کا رب ہے اور اس نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنا دئیے اور اس میں فائدہ کی چیزیں رکھ دیں اور اس میں اس کی غذائیں تجویز کر دیں چار دن میں پورے ہیں، پوچھنے والوں کے لئے۔ پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ دھواں سا تھا سو اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبردستی سے، دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں۔‘‘ اس آیت میں زمین کو آسمان سے قبل پیدا فرمانے کا تذکرہ ہے۔ بظاہر ان تینوں آیات میں ان کے ساتھ لکھی جانے والی آیات کے ساتھ تعارض ہے۔ لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ [فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ]والی آیت نفخہ اولیٰ کے بارے میں ہے جبکہ آیت: [أَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ]دوسرے نفخہ کے بعد کی کیفیت بیان کرتی ہے۔ اور مشرکین قیامت کے ابتدائی مرحلہ میں [وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ]ہی کہیں گے لیکن جب ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء گواہی دینے لگیں گے تو اس حالت کے لئے [وَلَا يَكْتُمُونَ اللّٰه حَدِيثًا]بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح دونوں میں زمین کو پیدا فرمایا پھر آسمان کو تخلیق فرمایا پھر آسمان پر مستوی ہوا پھر آخری دو دنوں میں زمین کو بچھایا اور اس کو بچھا کر اس میں سے پانی وغیرہ کو نکالا اور جبال و جمال اور جو کچھ ان کے مابین ہے ان سب کو انہی آخری دو دنوں میں پیدا فرمایا الخ۔‘‘ [5] |