مردہ مچھلی اور ٹڈی نیز خون بہ شکل جگر اور کلیجی کو استثناء حلال قرار دیا گیا ہے جو کہ بظاہر خلاف قرآن ہے لیکن دراصل اس استثناء اور عموم قرآن میں کوئی تعارض نہیں ہے، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ 4- اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: [تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ][1] یعنی ’’یہ حضرات مرسلین ایسے ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعضوں کو بعضوں پر فوقیت بخشی ہے۔‘‘ جبکہ ’’صحیح البخاری‘‘ کی ایک حدیث میں وارد ہوا ہے: ’’لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ‘‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دو۔‘‘ بظاہر یہ حدیث مذکورہ آیت کے خلاف ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبیوں میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دینے سے منع فرمایا ہے وہ یہ تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ یہودی نے کہا: ’’وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى العَالَمِينَ‘‘ یعنی ’’اس رب کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام عالم پر فضیلت بخشی۔‘‘ مسلمان نے بھی جواباً کہا: ’’وَالَّذِي اصْطَفَى مُحَمَّدًا عَلَى العَالَمِينَ‘‘ غصہ نے جب بڑھ کر زدوکوب کی صورت اختیار کی تو اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’لاَ تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ‘‘ آں صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بحیثیت نفس رسالت تمام انبیاء برابر ہیں اور یہی [لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ][2] کا مفہوم بھی ہے۔ فضیلت دینے میں کسی ایک نبی کی کم قدری کرنا درست نہیں ہے کہ یہ مقام ادب ہے۔ قرآن کریم نے اجمالاً بعض کی بعض پر فضیلت بیان کی ہے لیکن کوئی شخص محض اپنے قیاس سے یہ نہیں بتا سکتا کہ فلاں نبی کو فلاں نبی پر فضیلت حاصل ہے، بالخصوص اس طرح کہ فلاں فلاں بات میں یا ہر طرح اور ہر بات میں۔ چنانچہ جب یہ معلوم ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کسی نبی کی کم قدری اور اس بارے میں قیاس آرائی کرنے سے منع فرمایا تھا، تو حدیث و قرآن کے مابین ظاہری تعارض رفع ہو گیا۔ اگر کوئی پھر بھی حدیث اور قرآن کے ان یا ان جیسے دوسرے تعارضات کو پیش کرے اور اس بارے میں کسی قسم کی تاویلات قبول کرنے پر تیار نہ ہو تو ہم جواباً اس کے سامنے قرآن کی آیات کے مابین تعارضات کو پیش کریں گے۔ جب قرآن کی آیات کے مابین تعارضات کو حل کرنے کے لئے تاویلات پیش کی جا سکتی ہیں تو آخر احادیث کے تعارض کو حل کرنے کے لئے تاویلات کا سہارا کیوں ممنوع ہے؟ منھال بن عمرو الاسدی نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: ’’مجھے قرآن میں کچھ چیزیں ایسی نظر آتی ہیں جو میرے لئے ایک دوسرے کے خلاف ہیں مثلاً: [فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ][3] یعنی ’’پس ان میں جو باہمی رشتے ناطے تھے اس روز نہ رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔‘‘ جبکہ [وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ][4]یعنی ’’اور وہ ایک |