Maktaba Wahhabi

195 - 360
یا ان کو مشتبہ اور مشکوک ٹھہرانا بالکل ہدایت کا انکار کرنا اور ایک ثابت اور قطعی حقیقت کو جھٹلانا ہے۔ حدیث کی کتابوں کا احسان یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے یہ چیزیں تحریر میں بھی آ گئیں اور اس طرح تحریر میں آ گئیں کہ انسانی ہاتھوں سے انجام پائے ہوئے کسی کام میں زیادہ سے زیادہ جو احتیاط ممکن تھی وہ ان کے ضبط و تدوین کے معاملے میں ملحوظ رکھی گئی۔ اب اگر کچھ لوگ ان چیزوں میں سے بھی کسی چیز کو یا ساری ہی چیزوں کو اس لئے نہیں مانتے کہ ان کا ذکر قرآن میں نہیں آیا ہے تو ان کے لئے قرآن کو بھی ماننے کے لئے کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہتی کیونکہ قرآن بھی اگر ثابت ہے تو تواتر ہی سے ثابت ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے اور سنت عملی تواتر سے۔ اگر یہ عملی تواتر کسی کے نزدیک مشتبہ اور مشکوک ہے اور اس کو کسی عربی یا عجمی سازش کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے تو کل کو ایسے شخص کے لئے اس قولی تواتر (یعنی قرآن مجید) کے جھٹلا دینے میں کیا چیز آڑے آ سکتی ہے؟۔‘‘ [1] بعض اور مواقع پر بھی جناب اصلاحی صاحب نہایت دلیری کے ساتھ خم ٹھونک کر منکرین سنت کے مقابلہ میں یوں صف آراء ہوتے ہیں: ’’یہ سنت متواتر بعینہ انہی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن سے قرآن مجید ثابت ہے۔ امت کے جس تواتر نے قرآن کریم کو ہم تک منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر فرق ہے تو یہ فرق ہے کہ ایک چیز قولی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، دوسری چیز عملی تواتر سے۔ اس وجہ سے اگر قرآن مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جو سلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہے، ان کی صورت میں اگر کوئی جزوی قسم کا اختلاف ہے تو اس اختلاف کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘ [2] اور ’’سنت متواترہ بالکل انہی ذرائع سے ثابت ہے جن ذرائع سے خود قرآن مجید ثابت ہے۔ امت کے جس تواتر نے قرآن مجید کو ہم تک منتقل کیا ہے اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اس لئے اگر قرآن مجید کا ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس شکل کو ماننا بھی واجب ہے جو سلف سے خلف تک منتقل ہوئی ہے – الخ۔‘‘ [3]
Flag Counter