اور
’’جس تواتر نے ہم تک قرآن کو منتقل کیا ہے اسی تواتر نے ان اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے، اس لئے اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کے ماننے کے لئے بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔‘‘ الخ[1]
اور
’’منکرین سنت قرآن کو ماننے کے مدعی ہیں، لیکن سنت کا انکار کرتے ہیں۔ ان کی یہ منطق ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس لئے کہ جس طرح قرآن امت کے قولی تواتر سے ثابت ہے اسی طرح سے سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔ یہ لوگ جب سنت کو نہیں مانتے تو قرآن کو ماننے کی بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔ قرآن اور سنت میں ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ قولی تواتر سے ثابت ہے، یہ عملی تواتر سے ثابت ہے۔‘‘ [2]
جناب اصلاحی صاحب کے مندرجہ بالا اقتباسات بلاشبہ اپنی جگہ بہت جاذبیت رکھتے ہیں، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عملی تواتر سے ثابت سنتوں کا دائرہ آخر کس حد تک وسیع ہے؟ کیا شریعت کے تمام گوشے اس دائرہ میں سما سکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ عملی تواتر سے ثابت سنتوں کا احاطہ صرف کچھ عبادات اور چند اعمال سے زیادہ آگے نہیں جاتا۔ لہٰذا پورے اسلام کو ثابت کرنے اور بعینہ قائم رکھنے کے لئے لازم ہے کہ تواتر کی شرط سے باہر نکلا جائے اور متواتر ذخیرہ احادیث کے علاوہ ثابت شدہ آحاد کی طرف بھی یکساں طور پر رجوع کیا جائے۔
ایک مقام پر جناب اصلاحی صاحب فتنہ انکار حدیث کی تاریخ اور اس کی نشوونما پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ ضروری ہے کہ حدیث اور سنت کے درمیان جو فرق ہم نے واضح کیا ہے اس کو ملحوظ رکھا جائے۔ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ چند حدیثوں کے انکار کو انکار سنت کے مترادف سمجھ لیا گیا، اور پھر منکرین حدیث نے حدیث کے خلاف جو شبہات ایجاد کئے وہ انہوں نے سنت پر بھی پھیلا دئیے، حالانکہ سنت کا انکار جیسا کہ ہم نے عرض کیا، خود قرآن کے انکار کے ہم معنی ہے۔
انکار حدیث کے فتنہ کی تاریخ سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اصلاً یہ فتنہ چند الجھن پیدا کرنے والی حدیثوں سے اٹھا، لیکن بعد میں جب یہ مسئلہ مناظرہ کا موضوع بن گیا تو بحث کی گرما گرمی میں
|