Maktaba Wahhabi

197 - 360
لوگ حدیث اور سنت کے فرق کو بھول گئے۔ نہ حملہ کرنے والوں کو ہوش رہا کہ وہ کس چیز پر حملہ کر رہے ہیں اور نہ مدافعت کرنے والے یہ اندازہ کر سکے کہ انہیں کس چیز کی مدافعت کرنی ہے، اور وہ کس محاذ پر اپنا زور صرف کر رہے ہیں۔ اس بے خبری میں دونوں نے نقصان اٹھایا۔ منکرین حدیث نے اپنی بات، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، کفر تک پہنچا دی اور حامیان حدیث نے بلاوجہ حدیث کے ساتھ سنت کو بھی ہدف پر لا کھڑا کیا۔‘‘ [1] جناب اصلاحی صاحب نے ’’حدیث‘‘ و ’’سنت‘‘ کے مابین جو غیر معروف و غیر مصطلح فرق بیان کیا ہے اس پر تفصیلی گفتگو اوپر پیش کی جا چکی ہے۔ یہاں فی الحال صرف یہ بتانا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ منکرین حدیث نے جن احادیث کا انکار کیا ہے وہ محدثین و فقہاء کے اسی معروف معنی کا انکار ہے نہ کہ جناب اصلاحی صاحب کے بیان کردہ غیر عرفی معنی کا۔ اگر اصلاحی صاحب کے بیان کردہ اس فرق کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس سے منکرین کے ’’انکار حدیث‘‘ اور اصلاحی صاحب کے ’’اقرار حجیت سنت‘‘ پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑتا، بس کچھ اعتباری اور واجبی سا ہی امتیاز باقی رہ جاتا ہے۔ البتہ جناب اصلاحی صاحب کا یہ فرمانا درست ہے کہ پرانے اہل بدعت چودہویں صدی ہجری کے منکرین کی طرح کھل کر حدیث کے منکر نہ تھے، بلکہ انہیں بعض آیات و احادیث کے متعلق ذہنی الجھنیں اور وساوس ضرور درپیش تھے۔ اپنے ان شبہات کو دور کرنے کے لئے انہوں نے تاویل اور انکار کی راہ کو منتخب کیا تھا، جیسا کہ ’’تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی اعداء اھل الحدیث لابن قتیبہ الدینوری، مشکل الآثار للطحاوی، مشکل الاحادیث لابن فورک اور الاحادیث المشکلۃ للقمی‘‘ وغیرہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن اگر ان کی ان ذہنی الجھنوں کے اسباب و علل پر غور کیا جائے تو علم ہو گا کہ: 1۔ قلت علم اور مستند علمی مآخذ سے عدم واقفیت کی بناء پر جب یہ لوگ کسی حدیث کی علمی توجیہ سے قاصر رہتے تو اس حدیث کے انکار کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا تھا، مگر جب یہی الجھن انہیں کسی آیت کے بارے میں پیش آ جاتی تو ظاہر ہے کہ آیت کا انکار تو کر نہیں سکتے تھے لہٰذا ان کی طرف سے اس آیت کی ایسی ایسی مضحکہ خیز تاویلات پیش کی جاتی تھیں کہ عقل حیران ہے۔ 2۔ ان منکرین میں ایک طبقہ وہ بھی تھا جو دین اسلام کی حقانیت اور صداقت پر کبھی اپنے ذہن و قلب کو صد فی صد مطمئن نہ کر سکا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع و اطاعت کسی طرح ان کے حلق کے نیچے نہیں اترتی تھی، لہٰذا کبھی وہ عقل و تجربات اور محسوسات و مشاہدات کو کسوٹی بناتے تو کبھی
Flag Counter