Maktaba Wahhabi

193 - 360
کس عملی تواتر کی بابت ترجیح کا یہ کلیہ بیان فرما رہے ہیں؟ جبکہ امت میں سے حنفیہ کے پاس نماز کے اپنے طریقہ پر ’’عملی تواتر‘‘ موجود ہے، شافعیہ و حنابلہ اور مالکیہ کے پاس بھی نماز کے اپنے اپنے طریقوں پر ’’عملی تواتر‘‘ موجود ہے۔ ایسی صورت میں اصلاحی صاحب ہی بتائیں کہ ان مختلف عملی تواتروں میں سے کس عملی تواتر کو ’’روایات کے ریکارڈ کی طرف رجوع کئے بغیر سنت نبوی اور امت کے لئے ترجیحی عمل قرار دیں گے‘‘؟ -- اگر ان میں سے صرف ایک طریقہ ہی ’’سنت‘‘ ہے تو پھر دوسرے مکاتب فکر کے ’’عملی تواتر‘‘ کے غیر مسنون ہونے کے بارے میں آپ کس طرح فیصلہ فرمائیں گے؟ اگر آپ کہیں کہ سب طریقے ہی ’’سنت‘‘ ہیں تو پھر ان تمام فقہی گروہوں کا وجود اور ان کے مابین اس قدر کشیدگی اور اختلافات کیوں باقی ہیں؟ میں مزید یہ پوچھنے کی جسارت بھی کروں گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کو شاہد بنا کر حلیفہ بتائیں کہ اپنی عمر عزیز کا کس قدر حصہ آپ نے حنفی طریقہ سنت کے مطابق اور کس کس قدر دوسرے طرق سنت کے مطابق نماز ادا کرنے میں گزارا ہے؟ -- اگر جواب صرف حنفی طریقہ سنت کے حق میں ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری سنتوں کو یا تو عمداً ترک کیا ہے یا پھر ان کا انکار۔ یہاں مجھے ترک سنت کا حکم بتانے کی ضرورت نہیں، البتہ انکار سنت کا حکم بقول آپ کے ’’خود قرآن کے انکار کے ہم معنی ہے‘‘ – اگر آپ کا جواب یہ ہو کہ میں نے ہر طرق سنت کے مطابق نماز ادا کی ہے اور ان میں عمر عزیز کے کل حصہ کو مساوی تقسیم بھی کیا ہے تو فبہا ورنہ امتیاز کی وجہ دریافت طلب ہو گی – یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ نماز کا ہر طریقہ ’’سنت‘‘ نہیں ہو سکتا کیوں کہ خود اصلاحی صاحب کے الفاظ میں ’’سنت‘‘ تو صرف وہی طریقہ ہو سکتا ہے ’’جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار عمل کیا ہو، جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محافظت فرمائی ہو، جس کے حضور عام طور پر پابند رہے ہوں۔‘‘ [1] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بحیثیت معلم شریعت اور بحیثیت کامل نمونہ کے – عملاً اور قولاً لوگوں کو بتایا اور سکھایا ہو‘‘[2]، ظاہر ہے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ آپ نے بار بار متضاد چیزوں پر عمل کیا ہو گا یا متضاد چیزوں کی محافظت فرمائی ہو گی یا عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم متضاد چیزوں پر پابند رہے ہوں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بحیثیت معلم شریعت‘‘ اور ’’کامل نمونہ‘‘ کے لوگوں کو عملاً اور قولاً متضاد چیزوں کو بتایا اور سکھایا ہو گا۔ آگے چل کر اخبار آحاد یا ان کے ’’ظنی‘‘ ہونے یا مالکیہ کے نزدیک ’’عمل اہل مدینہ‘‘ کو آحاد پر ترجیح دینے یا حنفیہ کے ’’عموم بلوی‘‘ میں آحاد کو کوئی اہمیت نہ دینے کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ باب ششم: ’’اخبار آحاد کی حجیت‘‘ کے زیر عنوان پیش کی جائے گی۔
Flag Counter