کرتے یا سب ہی خاموش کھڑے رہتے، سب کے ہاتھ یا تو سینہ پر بندھے ہوتے یا پھر سبھی ناف پر ہاتھ باندھتے، سب لوگ آمین بالجہر کہتے یا پھر سب ہی پست آواز میں آمین کہ لیتے، سب لوگ قبل و بعد از رکوع رفع الیدین کرتے یا سبھی رفع الیدین کو ترک کرتے، سب لوگ ہی جلسہ استراحت کرتے یا پھر سب اس سے گریز کرتے، اسی طرح تمام امتی قعدہ اخیرہ میں تورک کرتے یا پھر تمام لوگ ہی تورک سے گریز کرتے – غرض کہاں تک امت کے درمیان صرف نماز ہی میں عملی اختلاف کی موجودگی کا تذکرہ کروں – اگر یہ سب چیزیں ہی سنت ہیں تو پھر خلاف سنت کیا چیز ہے؟ -- دراصل یہ تمام اختلافات علم نبوی سے دوری کا ہی نتیجہ ہیں۔ اگر تمام امت علم کی بدولت اپنے فقہاء، علماء اور بزرگوں کے تقلیدی خول سے باہر آ سکتی تو یہ اختلافات ازخود رفع ہو سکتے تھے۔
پس معلوم ہوا کہ امت میں سے بعض افراد یا کسی گروہ کا کوئی عمل سنت نبوی صرف اسی وقت قرار پا سکتا ہے جب کہ وہ ایسے علم نبوی سے ثابت بھی ہو جس کے بیان کرنے والوں میں ثقاہت و عدالت کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوں۔ گویا روایات کا ریکارڈ محض مؤید سنت نہیں بلکہ اس کو پرکھنے کی کسوٹی ہے۔
اگر ’’چند راویوں‘‘ کا کسی حکم نبوی کو بیان کرنا اتنا ہی غیر اہم اور غیر ضروری ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز یہ نہ فرماتے: ’’ نضَّر اللّٰه امْرءًا سَمِع مَقالَتي فَوعَاهَا وَحفِظها وَوعَاهَا وَ أَدَاهَا۔۔الخ‘‘[1]یعنی ’’اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری بات سنی پھر اسے یاد رکھا اور آگے پہنچایا—الخ۔‘‘ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الغَائِبَ، فإنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أنْ يُبَلِّغَ مَن هو أوْعَى له منه‘‘[2]– ان احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات سننے، انہیں یاد رکھنے اور ایسے شخص تک پہنچانے کا حکم دیا ہے جو اسے بعد کے لوگوں تک منتقل کر دے، اور ظاہر ہے کہ ’’روایات کے ریکارڈ میں‘‘ ارشادات نبوی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال (جو کہ جناب اصلاحی کی اصطلاح میں ’’سنت‘‘ سے عبارت ہیں) اور تقریرات کا ذکر بھی ہوتا ہے۔
اب جناب اصلاحی صاحب کا یہ قول ملاحظہ فرمائیں کہ اگر روایات کا ریکارڈ ’’عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا ....... امت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی‘‘ – میں پوچھتا ہوں کہ آں محترم امت کے
|