ہے۔ وہ عمل اہل مدینہ کو حجت مانتے ہیں اور اس کو ’’السنة عندنا هكذا‘‘ (سنت ہمارے ہاں اسی طرح ہے) سے تعبیر کرتے ہیں۔ احناف بھی عموم بلوی میں اخبار آحاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اس میں بھی وہی سپرٹ (اسپرٹ) ہے۔
یہاں اس امر کو بھی ذہن نشین رکھئے کہ امت کے عملی تواتر سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور صحابہ کا عمل ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ’’فعليكم بسُنَّتي وسُنَّةِ الخُلَفاءِ الرَّاشِدينَ المَهْدِيِّينَ‘‘ (تم پر میری اور میرے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کی پیروی واجب ہے۔ سنن ابن ماجہ: مقدمہ، باب 6)۔ دین کا مرکز یہی گروہ ہے۔ اس وقت جو بھیڑ ایسے اعمال کی حامل ہے جو قرآن و سنت سے صریحاً متناقض ہیں تو یہ سب اہل بدعت ہیں اور بدعت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بدعت گمراہی ہے اور گمراہی کا ٹھانا جہنم ہے۔‘‘ [1]
اس عنوان کے تحت ابتداءً جناب اصلاحی صاحب نے کوئی نئی بات بیان نہیں کی ہے، بلکہ صرف اپنے خود ساختہ معیار کے مطابق ’’حدیث‘‘ پر ’’سنت‘‘ کی امتیازی حیثیت اور فوقیت کو ظاہر کیا ہے۔ وہی ’’حدیث‘‘ میں صدق و کذب کے احتمال کی موجودگی، سنت کا امت کے عملی تواتر سے ثابت ہونا، احادیث کا ظنی ہونا، احناف کا عموم بلوی میں اخبار آحاد کو اہمیت نہ دینا اور سنت کے قطعی ہونے کا بیان آپ کو ذرا مختلف پیرایہ پر اس عنوان کے تحت دیکھنے کو ملے گا۔
جہاں تک اصلاحی صاحب کے اس قول کا تعلق ہے کہ ’’ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیار کیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں – اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے‘‘ – گویا آں محترم کے نزدیک دین کا اصل ماخذ صرف آباء و اجداد کے ذریعہ منتقل ہونے والا عمل ہے، ان کے ذریعہ منتقل ہونے والے بیانی علم کی حیثیت محض ایک مؤید کی ہے۔ یہ فکر انتہائی غیر دانشمندانہ اور خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ علم کے بغیر عمل کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ روح کے بغیر جسم کی، لہٰذا عمل کے لئے علم کا ہونا اور علم کے ساتھ عمل کا ہونا ناگزیر ہے۔ اگر امت نے نماز اور حج وغیرہ کی تفصیلات کو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسل در نسل عملاً منتقل ہونے کی بناء پر اس عمل کی محافظت کے یقین کے ساتھ ہی اختیار کیا ہوتا تو آج امت کے درمیان کم از کم نماز جیسی بنیادی چیز کی ادائیگی کے طریقہ میں کوئی اختلاف نہ پایا جاتا۔ سب لوگ یا تو امام کی اقتداء میں ہاتھ باندھتے یا پھر سب ہی ہاتھ کھلے رکھتے، امام کے پیچھے یا تو سب لازماً سورۃ فاتحہ کی قرأت
|