ہے۔ اس لئے وہ بھی بحکم وحی ہو جاتا ہے۔‘‘ [1]
23۔ جناب امین احسن اصلاحی بھی ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
’’جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احکامی آیات کے اجمالات کی وضاحت فرمائی اسی طرح حکمت کے دقیق اشارات قرآن میں ہیں، ان کی بھی وضاحت فرمائی۔ یہی چیز ہے جس کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ألا إنِّي أوتيتُ الكتابَ ومثلَهُ معهُ‘‘ دیکھو! مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے مثل اور بھی۔‘‘
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ سنت مثل قرآن ہے، سنت اپنے ثبوت میں بھی ہم پایہ قرآن ہے الخ۔ [2]
خلاصہ کلام یہ کہ استدلال اور اخذ مسائل کے وقت حدیث نبوی کا حکم بھی قرآن کریم کی طرح وحی الٰہی کا ہی ہے کیونکہ اس کا علم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح دیا گیا ہے جس طرح کہ قرآن کا لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ جس طرح نماز میں قرآن پڑھا جاتا ہے اسی طرح حدیث بھی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے۔
جمہور امت کی متفقہ رائے کے برخلاف ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور ان کے ہم مشرب سنت نبوی کے مبنی بر وحی ہونے کے منکر ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’جو احادیث قرآن، عقل اور حقیقت کے خلاف نہیں ہم ان کے متعلق یہ حسن ظن تو رکھ سکتے ہیں وہ غالباً اقوال رسول ہوں گے، لیکن پورے وثوق سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔‘‘ [3]
اور
’’ – ہمارے لئے صاف اور سیدھا راستہ یہی ہے کہ ہم صرف قرآن حکیم پر ایمان لائیں اور قرآن سے مطابق احادیث پر حسن ظن رکھیں اور ظاہر ہے کہ ایک ظنی چیز کو وحی کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ [4]
اور
’’ہم صفحات گذشتہ میں کئی آیات سے واضح کر چکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی صرف قرآن نازل ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی اور قول وحی کا درجہ نہیں رکھتا۔ چونکہ قرآن میں صرف مہمات مسائل سے بحث کی گئی ہے اور چھوٹی موٹی تفاصیل کو انسانی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام غیر الہامی مسائل میں صحابہ سے مشورہ لیا کرتے تھے الخ۔‘‘ [5]
-- فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان تمام ہفوات کا باطل اور سبیل المومنین سے منحرف ہونا اوپر پیش کی گئی بحث سے ازخود ظاہر ہے، لہٰذا ہم مزید تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
|