کرتے ہیں، لیکن اس آیت میں بھی ان کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہرگز یہ نہیں فرمایا ہے کہ: ’’میں ایک آیت کو صرف دوسری آیت کی جگہ ہی بدلتا ہوں‘‘، بلکہ اس آیت میں ہم سے یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک آیت (یعنی اپنے حکم) کو دوسری آیت (یا دوسرے حکم) کی جگہ بدل دیتا ہے – ہم اس کا انکار نہیں کرتے بلکہ اس کا اثبات ہی کرتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ بدل دیتا ہے اور کبھی اس کے علاوہ بھی تبدیلی فرماتا ہے اور یہ تبدیلی اس آیت کی جگہ وحی غیر متلو کے ذریعہ ہوتی ہے۔‘‘ [1]
اور فرماتے ہیں:
’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: [قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي]سے بھی حجت پکڑتے ہیں حالانکہ اس آیت میں بھی ان کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود یا اپنی مرضی کے مطابق اس کو بدل دیا ہے، بلکہ ایسا کہنے والا تو بلاشبہ کافر ہے۔ ہمارا کہنا تو فقط یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ وحی کے مطابق بدل دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برملا یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا تھا:
[إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ]--‘‘ پس اس سے نصاً وحی کا وحی کے ساتھ جواز نسخ ثابت ہوا۔ اور چونکہ سنت بھی وحی ہے، لہٰذا قرآن کا سنت کے ساتھ نسخ جائز ہوا۔‘‘ [2]
ایک حدیث میں بھی اس امر کی صراحت یوں ملتی ہے:
’’أن النَّبِي صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أخذ وبرة من بعيرة وَقَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهٗ لَا يَحِلُّ لِي بَعْدَ الَّذِي فَرَضَ اللّٰه لِي وَلَا لِأَحَدٍ مِنْ مَغَانِمِ الْمُسْلِمِينَ مَا يَزِنُ فِي هَذِهِ الْوَبَرَةِ‘‘ [3]
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ ’’اطرف‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اس کو ایک جماعت مثلاً: ھمام، حجاج بن ارطاۃ، عبدالرحمٰن المسعودی، حسن بن دینار، لیث بن ابی سلیم اور ابوبکر الھذلی نے قتادہ سے اور مطر الوراق نے شہر سے روایت کیا ہے۔ مطر الوراق کی حدیث کی تخریج عبدالرزاق نے اپنی ’’مصنف‘‘ میں اور لیث بن ابی سلیم کی حدیث کی تخریج ابن ھشام نے اواخر ’’السیرۃ‘‘ میں عن ابن اسحاق عنہ عن شہر عن عمرو بن خارجہ کی ہے۔‘‘ [4]
جہاں تک سنت میں قرآن جیسا اعجاز نہ ہونے اور اس کی تلاوت پر قرآن جیسا اجر نہ ہونے کا تعلق ہے تو
|