ان چیزوں کا کوئی بھی مدعی نہیں ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت- 106 میں مذکور ’’اس سے بہتر یا اسی کے مثل‘‘، ناسخ باعتبار اعجاز اور ثواب تلاوت نہیں بلکہ باعتبار تحکیم شریعت ہے، پس علامہ ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ اور علامہ فناری رحمہ اللہ وغیرہما کا یہ اعتراض بے محل ثابت ہوا۔
علامہ صدر الشریعہ رحمہ اللہ کا غیر مسلموں کے اعتراضات کے احتمال کے پیش نظر نسخ القرآن بالسنہ کا انکار کرنا بھی خلاف حق ہے، کیونکہ غیر مسلموں کو یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی کسی خاص مصلحت کے تحت پہلے ایک حکم نازل فرمایا تھا، کچھ عرصہ بعد اپنے اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنے سابقہ حکم کی جگہ ایک نیا حکم بھیج دیا تو اس سے وحی الٰہی کی تردید کیوں کر لازم آئی؟ کیا اللہ عزوجل نے قرآن نازل فرمانے سے پہلے ہی بنی نوع انسان کو اس بات سے باخبر فرما دیا تھا کہ قرآن میں جو کچھ نازل کیا جائے گا وہ خود اس کے لئے ناقابل تنسیخ ہے؟ غیر مسلموں کے دوسرے اعتراض کا جواب چونکہ تفصیل کا محتاج ہے، لہٰذا بخوف طوالت ہم اس سے یہاں گریز کرتے ہیں۔
قاضی ابو طیب، علامہ باقلانی اور صقلی وغیرہ نے سنت سے نسخ قرآن کا، قرآن کے قطعی ہونے کے مقابلہ میں سنت کے مظنون ہونے کی بنا پر، جو انکار کیا ہے تو وہ بھی قطعی بے وزن اور ناقابل التفات ہے لیکن ان کی تفصیل ان شاء اللہ آگے باب ششم کے تحت بیان کی جائے گی۔
نسخ القرآن بالسنہ کے بعض منکرین اپنے موقف کی تائید میں ایک موضوع حدیث بھی پیش کیا کرتے ہیں، جو حسب ذیل ہے:
’’قَالَ رَسُوْل اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم: كَلامِي لا يَنْسَخُ كَلامَ اللّٰه ، وكَلامُ اللّٰه يَنْسَخُ كَلامِي ، وكَلامُ اللّٰه يَنْسَخُ بَعْضُهُ بَعْضا‘‘ [1]
یعنی ’’میرا کلام، اللہ تعالیٰ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا، لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور کلام اللہ کا بعض حصہ دوسرے حصہ کو منسوخ کرتا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کسی قرآنی آیت کو منسوخ نہیں کر سکتی لیکن کسی آیت سے حدیث رسول کا نسخ ممکن ہے۔ اسی طرح قرآن کی بعض آیات بھی دوسری آیات کے لئے ناسخ ہو سکتی ہیں – بظاہر یہ حدیث انکار نسخ سے متعلق مذکورہ بالا تینوں آیات سے مستفاد و ماخوذ نظر آتی ہے لیکن کسی خبر کا موافق قرآن ہونا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔
اس حدیث کو امام ابن عدی نے ’’الکامل فی الضعفاء‘‘ میں جبرون بن واقد کے زیر ترجمہ بطریق محمد
|