لیکن تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اقربین میں سے ہر وارث کے لئے ایجاب وصیت منسوخ ہے، لیکن اس آیت کی نسخ کی تعیین کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ناسخ آیت: [الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ]کی تعیین کے متعلق اختلاف ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ آیت فرائض اس کی ناسخ ہے اور بعض لوگ حدیث: ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ کو اس کی ناسخ بتاتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس کی کوئی دلیل متعین نہ ہو سکتی ہو تو اجماع امت ہی اس آیت کے نسخ پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ [1]
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فأما الآية فقال ابن عباس نسخها قوله سبحانه: [لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ]وقال ابن عمر: نسختها آية الميراث وبه قال عكرمة و مجاهد و مالك والشافعي و ذهب طائفة ممن يري نسخ القرآن بالسنة إلي أنها نسخت بقول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم: إِنَّ اللّٰه قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ‘‘ [2]
یعنی ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ ایجاب وصیت کی اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد [لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ ۔۔۔ وَالْأَقْرَبُونَ]نے منسوخ کر دیا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے کہ اسے آیت میراث نے منسوخ کیا ہے۔ عکرمہ، مجاہد، امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کے اقوال بھی اسی کے موافق ہیں لیکن ایک جماعت جو سنت سے نسخ قرآن کی قائل ہے ان کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد: ’’إِنَّ اللّٰه قَدْ۔۔۔فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ‘‘ سے منسوخ ہوئی ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
’’إن ترك خير الوصية للوالدين والأقربين فكانت الوصية كذلك حتي نسختها آية ميراث‘‘[3]لیکن امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس روایت کی سند میں راوی علی بن حسین بن واقد ’’مقال‘‘ یعنی قوی نہیں ہے۔‘‘ [4]
علامہ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ وصیت آیت مواریث کے نزول سے قبل اقرباء کے لئے واجب تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں مذکور ہے: [كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ﴾
|