پھر اس حکم کو آیت میراث نے منسوخ کر دیا۔‘‘ [1]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ یہ وصیت میت کے والدین اور اقرباء کے لئے اوائل اسلام میں واجب تھی – پھر یہ آیت فرائض سے منسوخ ہوئی۔‘‘ [2]
تفسیر جلالین میں ہے:
’’وهذا منسوخ بآية الميراث و بحديث لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ۔۔ رواه الترمذي‘‘[3]یعنی ’’یہ آیت، آیت میراث اور حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ ہی سے منسوخ ہے۔‘‘
علامہ سرخسی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’آیت میراث میں وصیت کے جواز کی نفی مذکور نہیں ہے، صرف وجوب کی نفی ہے۔ وصیت کے جواز کو جس چیز نے منسوخ کیا وہ حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ ہی ہے۔‘‘ [4]
امام ابن حزم رحمہ اللہ کا خیال بھی یہی ہے کہ ’’وصیت کے وجوب کو آیت میراث کے بجائے حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ نے ہی منسوخ کیا ہے۔‘‘ [5]
علامہ امیر یمانی رحمہ اللہ ’’سبل السلام‘‘ میں فرماتے ہیں:
حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘، وارث کے لئے وصیت کی ممانعت پر دلیل ہے اور یہ جمہور علماء کا قول ہے لیکن علامہ ھادی اور ایک جماعت اس کے جواز کی طرف گئی ہے، وہ آیت [كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ]سے اس پر استدلال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وجوب کا نسخ اس کے جواز کی نفی نہیں کرتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر وہ اس حدیث کو رد نہیں کرتے تو یہ حدیث اس کے وجوب کی نفی کے ساتھ اس کے جواز کی نفی بھی کرتی ہے۔ آیت المواریث سے اس کا منسوخ ہونا معلوم ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
’’كان المال للولد والوصية للوالدين فنسخ اللّٰه سبحانه من ذلك ما أحب فجعل للذكر مثل حظ الأنثيين و جعل للأبوين لكل واحد منهما السدس و جعل للمرأة الثمن والربع وللزوج الشطر [6] والربع‘‘ [7]
|