ہبۃ اللہ کا قول ہے:
’’زیر بحث آیت کو سورۃ النساء کی آیت: 11 نے منسوخ کر دیا ہے۔ وجہ تنسیخ یہ ہے کہ آیت زیر بحث میں والدین اور اقرباء کے لئے وصیت کرنا واجب بتایا گیا ہے لیکن النساء کی آیت نے ورثاء بمع والدین کا حصہ مقرر کر کے اس وجوب کو معطل کر دیا ہے الخ۔‘‘ [1]
جناب مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں:
’’ان تین احکام میں سے پہلا حکم (یہ کہ مرنے والے کے ترکہ میں اولاد کے سوا کسی دوسرے وارث کے حصے مقرر نہیں ہیں، ان کے حصوں کا تعین مرنے والے کی وصیت کی بنیاد پر ہو گا) تو اکثر صحابہ و تابعین کے نزدیک آیت میراث سے منسوخ ہو گیا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے بتصحیح حاکم رحمہ اللہ وغیرہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اس حکم کو آیت میراث نے منسوخ کر دیا یعنی [لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا][2]
اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت میں اس کی یہ تفصیل ہے کہ آیت میراث نے ان لوگوں کی وصیت کو منسوخ کر دیا جن کا میراث میں حصہ مقرر ہے۔ دوسرے رشتہ دار جن کا میراث میں حصہ نہیں ان کے لئے وصیت ابھی بھی باقی ہے۔ (جصاص، قرطبی) لیکن باجماع امت یہ ظاہر ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ان کے لئے میت پر وصیت کرنا کوئی فرض و لازم نہیں۔ اس کے لئے فرضیت وصیت ان کے حق میں میں بھی منسوخ ہی ہو گئی۔ (جصاص، قرطبی)۔‘‘ [3]
یہاں ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کا وہ قول نقل کرنا بے سود نہ ہو گا جسے آں رحمہ اللہ سے ان کے تلمیذ علامہ ابن فورک رحمہ اللہ نے یوں نقل کیا ہے:
’’وكان يقول أن ذلك وجد في قوله تعاليٰ [كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ﴾الآية – فإنه منسوخ بالسنة المتواترة وهي قوله: لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، لأنه لا يمكن أن يجمع بينهما‘‘[4]یعنی ’’ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ سنت متواترہ سے قرآن کا نسخ خود قرآن میں پایا جاتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کا ارشاد: [كُتِبَ عَلَيْكُمْ]الخ (آیت)، سنت متواترہ سے منسوخ ہے۔ وہ سنت یہ (ارشاد نبوی) ہے: لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، کیونکہ اس آیت اور سنت کے درمیان جمع و تطبیق کی کوئی صورت ممکن
|