Maktaba Wahhabi

281 - 360
کے باعث آیت رجم کو جزو قرآن تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ [1] لیکن ان کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قد قال قوم في آية الرجم إنها لم تكن قرآنا و في آيات الرضعات كذلك و نحن لانأبي هذا ولا نقطع أنها كانت قرآنا متلوا في الصلوات ولكنا نقول‘‘[2]یعنی ’’بعض لوگوں کا آیت رجم کے متعلق کہنا ہے کہ یہ قرآن کا جزو نہ تھی اور اسی طرح آیات رضعات بھی قرآن کا حصہ نہ تھیں ہم نہ ان کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے جزو قرآن ہونے کی قطعیت کے قائل ہیں اس طرح پر کہ نمازوں میں ان آیات کی تلاوت بھی کی جاتی ہو لیکن (احادیث واردہ کی روشنی میں) ہم ایسا ہی کہتے ہیں۔‘‘ بعض معتزلہ یا اعتزال سے متأثر فقہاء نے منسوخ التلاوۃ لیکن باقی الاحکام آیات کی اس تقسیم پر بھی اعتراضات کئے ہیں چنانچہ ابو اسحاق شیرازی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’وقالت طائفة لا يجوز نسخ التلاوة مع بقاء الحكم لأن الحكم تابع التلاوة فلا يجوز أن يرتفع الأصل و يبقي التابع‘‘[3]یعنی ’’ایک جماعت کا قول یہ ہے کہ یہ جائز نہیں ہے کہ تلاوت تو منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہو کیونکہ حکم تلاوت کے لئے تابع کی حیثیت رکھتا ہے، پس یہ جائز نہیں ہے کہ اصل تو رفع ہو جائے لیکن تابع باقی رہ جائے۔‘‘ اور صدر الشریعہ کا قول ہے: ’’لأن النص بحكمه والحكم بالنص فلا انفكاك بينهما‘‘[4]یعنی ’’نص اپنے حکم کے ساتھ ہی نص ہے اور حکم نص کے ساتھ، لہٰذا ان دونوں میں تفریق ممکن نہیں ہے۔‘‘ مصطفیٰ کفاجی بعض معتزلہ کے اس انکار کی دلیل نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’بأن رفع التلاوة دون الحكم ورفع الحكم دون التلاوة إيقاع في الجهالة لأن الأصل في بقاء التلاوة بقاء حكمها و في رفعها رفع حكمها‘‘[5]یعنی ’’کیونکہ تلاوت کے منسوخ ہونے اور حکم کے باقی رہنے یا حکم کے رفع ہو جانے اور تلاوت کے باقی رہنے سے (اللہ تعالیٰ کا) جہالت میں واقع ہونا لازم آتا ہے (فنعوذ باللّٰه من ذلك) کیونکہ تلاوت کو محفوظ رکھنا دراصل حکم کو محفوظ رکھنا ہے اور اس کا نسخ اس کے حکم کا بھی نسخ ہے۔‘‘ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ان تمام اعتراضات کے خوب تفصیلی جوابات رقم فرمائے ہیں لیکن بخوف طوالت ہم
Flag Counter