Maktaba Wahhabi

314 - 360
علامہ ابن رشد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و أما الموصي له فإنهم اتفقوا علي أن الوصية لا تجوز لوارث لقوله عليه الصلاة والسلام لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ [1] علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَ لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ إِلَّا أَن يجيز الورثة ذلك۔ – قال ابن المذر و ابن عبدالبر أجمع أهل العلم علي هذا و جاءت الأخبار عن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم يقول:”إِنَّ اللّٰه قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ “ رواه ابو داؤد و ابن ماجه والترمذي و لأن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم منع من عطية بعض ولده و تفضيل بعضهم علي بعض الخ‘‘ [2] مشہور حنفی عالم شیخ محمد زاہد الکوثری اپنے ’’مقالات‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’نقل فيه إجماع العلماء علي العمل به كما نقل أيضا أنه حديث صحيح سندا[3]فانظره‘‘ [4] اور جناب انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: ’’هذا الحديث ضعيف بالاتفاق مع ثبوت حكمه بالإجماع‘‘ [5] یعنی ’’یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے لیکن ساتھ ہی اس کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے۔‘‘ اب جب کہ اس حدیث پر اجماع امت ثابت ہو چکا تو جاننا چاہیے کہ محدثین بالخصوص امام خطیب بغدادی وغیرہ رحمہ اللہ کے نزدیک اجماع امت سے نسخ قرآن جائز ہے، چنانچہ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وممن جوز كون الإجماع ناسخا للسنة والكتاب الحافظ البغدادي في كتاب الفقيه والمتفقه‘‘ [6] یعنی ’’جن لوگوں نے اجماع کو کتاب و سنت کے نسخ کے لئے جائز قرار دیا ہے ان میں حافظ خطیب بغدادی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ’’الفقہ والفقیہ‘‘ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے شرح ’’نظم الدرر‘‘ المسمی ’’البحر الذی زخر‘‘ میں، علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے ”فتح المغيث بشرح ألفيه الحديث للعراقي“ میں اور جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ’’الأجوبہ
Flag Counter