میں سے مغازی کے علماء کو پایا ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ فرمایا تھا۔ پھر جن صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اس کو یاد رکھا یا روایت کی پھر ان سے ملاقات کرنے والے اہل علم تابعین نے نقل کیا پھر کافۃ عن کافۃ یہ حدیث نقل ہوتی رہی، پس یہ نقل واحد سے زیادہ قوی تر ہوئی۔‘‘ فخر رازی نے اس حدیث کے متواتر ہونے سے اختلاف کیا ہے۔ اگر ان کے اس قول کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو یہ کم از کم ’’مشہور‘‘ ضرور ہے کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق قرآن سنت سے منسوخ نہیں ہوتا، لیکن یہاں اس حدیث کے مقتضی پر اجماع امت حجت ہے جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ نے صراحت فرمائی ہے۔‘‘ [1]
علامہ ابو محمد علی بن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لأن الكواف نقلت أن رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ‘‘ [2]
یعنی ’’چونکہ تمام لوگوں نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، لہٰذا یہ چیز نقلی تواتر کی حامل ہے۔‘‘
جناب مفتی محمد شفیع صاحب، علامہ ابوبکر الجصاص رحمہ اللہ سے نقلاً بیان کرتے ہیں کہ:
’’یہ حدیث ایک جماعت صحابہ سے منقول ہے اور فقہائے امت نے باتفاق اس کو قبول کیا ہے اس لئے یہ بحکم متواتر ہے جس سے آیت قرآن کا نسخ جائز ہے۔‘‘ [3]
ایک اور مقام پر مفتی رحمہ اللہ، علامہ قرطبی رحمہ اللہ سے نقلاً فرماتے ہیں:
’’اگرچہ یہ حدیث ہم تک خبر واحد ہی کے طریق پر پہنچی ہے مگر اس کے ساتھ اس پر اجماع صحابہ اور اجماع امت نے یہ واضح کر دیا کہ یہ حدیث ان حضرات کے نزدیک قطعی الثبوت ہے ورنہ شک و شبہ کی گنجائش ہوتے ہوئے اس کی وجہ سے آیت قرآن کے حکم کو چھوڑ کر اس پر اجماع نہ کرتے۔‘‘ [4]
اجماع امت کے متعلق علامہ ابوبکر محمد بن ابراھیم بن المنذر نیشا پوری رحمہ اللہ (318ھ)، ’’الأوسط‘‘ اور ’’الإجماع‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’و أجمعوا أن لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، إِلَّا أَن يجيز الورثة ذلك‘‘ [5]
|