امام بیہقی رحمہ اللہ نے زیر مطالعہ حدیث کو بطریق امام شافعی رحمہ اللہ [1] عن مجاہد مرسلاً بھی تخریج کیا ہے۔ [2]
یہاں ہم انہی طرق کی تحقیق پر اکتفا کرتے ہیں، مزید تحقیق کے لئے الجامع الصغیر [3]، مسند الطیالسی [4]، سنن سعید بن منصور [5]، إرواء الغلیل للالبانی [6]، سبل السلام لأمیر الیمانی، بلوغ المرام لابن حجر اور التلخیص الحبیر لابن حجر وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
واضح رہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’التلخیص‘‘ میں اس حدیث کو ’’حسن‘‘ علامہ محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ‘‘[7]میں ’’صحیح‘‘ اور دنیائے حنفیت کے محقق شیخ محمد زاہد الکوثری نے ’’سنداً صحیح‘‘ قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’أنه حديث صحيح سندا فانظره‘‘ [8]
علامہ محمد درویش حوت البیرونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کو نسائی رحمہ اللہ کے علاوہ تمام اصحاب سنن نے روایت کیا ہے۔ اس کے متعدد طرق ہیں: جن میں کچھ حسن اور کچھ ضعیف ہیں۔ دارقطنی رحمہ اللہ نے مرسلاً اس کی تصویب کی ہے۔‘‘ [9]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس باب میں عمرو بن خارجہ کی حدیث کی تخریج امام ترمذی و نسائی نے کی ہے، حضرت انس کی ابن ماجہ نے، عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی دارقطنی نے، جابر کی بھی دارقطنی نے (اور کہا کہ صواب یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے) اور حضرت علی کی ابن ابی شیبہ نے تخریج کی ہے۔ اگرچہ ان تمام احادیث کی اسانید میں سے کوئی بھی سند مقال (یعنی غیر قوی) رواۃ سے خالی نہیں ہے [10]، لیکن ان سب کا مجموعہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل ضرور ہے، بلکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب ’’الأم‘‘ میں یہاں تک فرمایا ہے کہ ’’یہ متن متواتر ہے۔‘‘ آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ ’’ہم نے اہل الفتیا اور ان سے نقل کرنے والے حفاظ نیز قریش وغیرہ
|