اللّٰه عزوجل كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، مَنِ ادُّعِيَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةَ اللّٰه وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، لَا يَقْبَلِ اللّٰه مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا‘‘ [1]
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس حدیث کی سند میں عبدالملک بن قدامہ الحجمی ہے، جس کی ابن معین رحمہ اللہ نے توثیق کی ہے لیکن دوسرے لوگوں نے اسے ضعیف بتایا ہے۔‘‘ [2]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’طبرانی رحمہ اللہ نے اس کی تخریج دوسرے طریق سے یوں بھی فرمائی ہے: ’’عن خارجۃ بن عمرو۔‘‘ لیکن یہ مقلوب ہے۔‘‘ [3]
اس حدیث کے مجروح راوی عبدالملک بن قدامہ الحمجی کے متعلق امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’قوی نہیں ہے۔‘‘ امام عجلی نے ’’ثقہ‘‘ اور یحییٰ نے ’’صالح‘‘ بتایا ہے۔ ابو حاتم رازی فرماتے ہیں: ’’غیر قوی، ضعیف الحدیث اور ثقات کی طرف سے منکرات بیان کرنے والا ہے۔‘‘ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’فحش خطا کرتا ہے اور بکثرت واہمہ کا شکار ہوتا ہے، لہٰذا اس کے ساتھ احتجاج درست نہیں ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ضعیف ہے۔‘‘ مزید تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [4] کی طرف رجوع فرمائیں۔
10- اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تخریج
حارث بن ابی اسامہ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں بطریق اسحاق بن عيسيٰ بن نجيح الطباع ثنا محمد بن جابر عن عبداللّٰه بن بدر قال: ’’سمعت ابن عمر يقول قضي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم بالدين قَبْل الوَصِيَّة وَ أَنْ لَا وَصِيَّة لِوَارِثٍ--‘‘ کی ہے۔ [5]
اس طریق میں اسحاق بن عیسیٰ بن نجيح الطباع کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’صدوق تھا‘‘[6]علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی اس کے متعلق یہی کچھ بیان کیا ہے۔ [7]
|