حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس مرفوع حدیث کی تخریج امام دارقطنی رحمہ اللہ [1] نے بھی کتاب ’’الفرائض‘‘ میں بطریق عاصم بن ضمرہ عن علی کی ہے۔
اول الذکر حدیث کے مجروح راوی ناصح بن عبداللہ الکوفی کو امام دارقطنی اور امام نسائی نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔ یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ليس بثقة‘‘ یعنی ’’ثقہ نہیں ہے۔‘‘ ایک موقع پر آں رحمہ اللہ نے ناصح کے متعلق ’’ليس بشيء‘‘ (یعنی ’’دھیلہ کے برابر بھی نہیں ہے‘‘) بھی فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اسے ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیتے ہیں۔ امام عمرو بن علی نے اسے ’’متروک الحدیث‘‘ بتایا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ينفرد بالمناكير عن المشاهير فاستحق الترك‘‘ مزید تفصیلی حالات کے لئے حاشیہ [2] کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
اور آخر الذکر حدیث کے مجروح راوی یحییٰ بن ابی انیسہ کو اس کے بھائی زید بن ابی انیسہ نے ’’جھوٹا‘‘ بتایا ہے۔ امام احمد، امام نسائی اور امام علی بن جنید کا قول ہے کہ ’’متروک الحدیث ہے۔‘‘ علی بن المدینی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’لا يكتب حديثه‘‘ یحییٰ بن معین نے بھی ایسا ہی فرمایا ہے، اور کہتے ہیں کہ ’’اس کی روایت کا کچھ بھی مقام نہیں ہوتا۔‘‘ لیکن عمرو بن علی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’صدوق تھا مگر اس کو وہم ہو جایا کرتا تھا۔‘‘ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’اسانید کو الٹ پلٹ کر دیتا اور مراسیل کو مرفوع بنا دیتا تھا۔ اس کے ساتھ احتجاج بہرحال درست نہیں ہے۔‘‘ مزید تفصیلی کوائف کے لئے حاشیہ [3] کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
9- حضرت خارجہ بن عمرو کی حدیث کی تخریج
طبرانی نے اپنی معجم میں عن عبدالملک بن قدامہ الحمجی عن ابیہ عن خارجۃ بن عمرو الحمجی رضی اللہ عنہ یوں کی ہے: ‘‘أنْ رَسُوْل اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ يَوْم الْفَتْح وَ أَنَا عِنْد نَاقته: ’’ لَيْسَ لِوَارِثٍ وَصِيَّة، قَدْ أَعْطَى
|