عراق کو اس کے ضعف پر متفق دیکھا ہے۔‘‘ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے کہ ’’قوی نہیں ہے۔‘‘ لیکن علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اسے ’’قوی‘‘ بتایا ہے۔ مزید تفصیلات حالات کے لئے حاشیہ [1] کے تحت مذکورہ کتب کا مطالعہ مفید ہو گا۔
(ملاحظہ: محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کی تخریج کردہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے طریق کو ’’صحیح‘‘[2]قرار دیا ہے)۔
7- حضرت براء بن ارقم رضی اللہ عنہ کی احادیث کی تخریج
بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے عن موسیٰ بن عثمان الحضرمی عن ابی اسحاق عن زید بن ارقم والبراء یوں فرمائی ہے: ’’قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيهِ وَسلَّمَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ وَنَحْنُ نَرْفَعُ غُصْنَ الشَّجَرَةِ عَنْ رَأْسِهِ فَقَالَ إِنَّ الصَّدَقَةَ لا تَحِلُّ لِي، ولاَ لأَهْلِي لَعَنَ اللّٰه مَنِ ادُّعِيَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَلَعَنَ اللّٰه مَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ لَيْسَ لِوَارِثٍ وَصِيَّة‘‘ اس حدیث کو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے راوی موسیٰ بن عثمان الحضرمی کے باعث معلول کیا ہے، اور فرماتے ہیں کہ ’’اس کی حدیث غیر محفوظ ہوتی ہے۔‘‘ [3]
موسیٰ بن عثمان الحضرمی کے متعلق یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ليس بشئ‘‘ یعنی ’’دھیلہ کے برابر بھی نہیں ہے۔‘‘ ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’تشیع میں غلو کرتا تھا۔‘‘ مزید تفصیلی حالات کے لئے حاشیہ [4] کی طرف رجوع فرمائیں۔
8- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تخریج
بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے عن ناصح بن عبدالله الكوفي عن ابي إسحاق عن الحارث عن علي قال قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم یوں فرمائی ہے: ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ ، اَلْوَلَدُ لِمَنْ ولد علي فِرَاشِ أَبِيْهِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ‘‘ پھر راوی ناصح بن عبداللہ الکوفی کی امام نسائی رحمہ اللہ سے تضعیف نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’إنه ممن يكتب حديثه‘‘ ابن عدی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تخریج عن یحییٰ بن ابی انیسہ عن ابی اسحاق عن عاصم بن ضمرۃ عن علی، کے طریق سے مرفوعاً یوں بھی کی ہے: ’’الدين قَبْل الْوَصِيَّة وَ لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ پھر امام بخاری، امام نسائی، امام ابن المدینی، امام ابن معین اور ان کے موافقین سے یحییٰ بن ابی انیسہ کی تضعیف نقل فرمائی ہے۔‘‘ [5]
|