-- ان تمام آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد دین میں داخل اور اللہ عزوجل کی جانب سے بھیجی گئی وحی ہے، اس بارے میں کوئی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے، اور نہ اس بارہ میں کسی اہل لغت یا کسی اہل شریعت نے اختلاف کیا ہے کہ اللہ عزوجل کی جانب سے نازل ہونے والی ہر وحی ذکر منزل ہے۔ اور ’’البیان‘‘ یعنی بیان القرآن کلام سے عبارت ہے، پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت فرماتے تو اس کی تشریح و بیان بھی فرماتے، اگر قرآن کا کوئی حکم مجمل ہوتا جس کے معنی الفاظ سے پوری طرح سمجھ میں نہ آ سکتے ہوں تو موصولہ وحی کے ذریعہ اس کی توضیح فرماتے خواہ وہ وحی متلو ہو یا غیر متلو جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں مذکور ہے: [ فَإِذَا قَرَأْنَـٰهُ فَٱتَّبِعْ قُرْءَانَهُۥ [١٨]ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ]اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ خبر دیتا ہے کہ قرآن کی بیان و توضیح اللہ عزوجل کے ذمہ ہے۔ پس اگر یہ اس کے ذمہ ہی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی جانب ہی سے ہوا۔ پس قرآن اور اس کی تفسیر ہر چیز خواہ متلو ہو یا غیر متلو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہی وحی ہوئی ہے۔‘‘ [1] 13۔ علامہ حازمی رحمہ اللہ (584ھ) فرماتے ہیں: ’’جبریل علیہ السلام سنت بھی لے کر نازل ہوتے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھاتے تھے، چنانچہ آپ ایسی کوئی بات نہیں کہتے تھے جو تنزیل کے خلاف ہو الا یہ کہ آپ کا سابقہ کوئی قول تنزیل کے ذریعہ منسوخ ہو چکا ہو۔ پس تنزیل کا معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وہ قول ہے جو باسناد صحیح آپ سے ثابت ہو۔‘‘ [2] 14۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ آیت: [وَأَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ]کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’فالکتاب ما یتلی والحکمة السنة وھو ما جاء به عن اللہ بغیر تلاوة‘‘ [3] یعنی ’’کتاب‘‘ وہ وحی ہے جس کی تلاوت کی جاتی ہے اور ’’حکمت‘‘ سنت ہے جو کہ بصورت وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر تلاوت کے آئی ہے۔‘‘ 15۔ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) نے امام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ (478ھ) سے نقل کیا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ کا کلام دو قسموں میں نازل ہوا ہے۔ ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام، کہ جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا جاتا تھا، سے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اس طرح کرو، یا اللہ تعالیٰ نے اس اس طرح حکم دیا ہے۔ پس جبریل علیہ السلام نے اپنے رب کے حکم کو سمجھا اور اس کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے اور ان سے اپنے رب کا ارشاد بیان کیا۔ لیکن اس کے لئے کوئی عبارت مخصوص نہ ہوتی تھی، مثال کے طور پر ملک یہ کہے کہ: ’’فلاں سے کہو کہ ملک نے تیرے لئے یہ حکم دیا ہے: ’’اجتهد في الخدمة واجمع جندك للقتال‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات کو اپنے الفاظ میں یوں بیان فرمائیں: ’’ملک نے کہا ہے کہ: ’’لا تتهارن في خدمتي وإلا تترك الجند |