Maktaba Wahhabi

359 - 360
’’یہ روایت کسی منافق کی گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور مقصود اس کے گھڑنے سے قرآن کی محفوظیت کو مشتبہ ٹھہرانا اور سادہ لوحوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرنا ہے کہ قرآن کی بعض آیات قرآن سے نکال دی گئی ہیں۔‘‘ [1] بلاشبہ یہ دعویٰ نہ صرف بلا دلیل ہے بلکہ احادیث پر سے ’’سادہ لوحوں‘‘ کا اعتبار و اعتماد ختم کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہم کے واسطوں سے آنے والی ہیرے جیسی آب و تاب رکھنے والی روایت کے انتہائی ثقہ، عادل و ضابط رایوں میں سے کسی کو ’’منافق‘‘ یا اس حدیث کو گھڑنے والا بتانا ایک بڑی جسارت ہے جو روز قیامت قابل مواخذہ ہو سکتی ہے۔ یہ بحث چونکہ یہاں ان حضرات کے مذکورہ بالا انکار کے تفصیلی جواب کی متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا ہم ان حضرات سے ان کے انکار کی دلیل طلب کرتے ہیں: هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ جب اوپر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ محصن زانی و زانیہ کے لئے حد رجم عہد رسالت کے علاوہ چاروں خلفائے راشدین کے عہدوں میں بالفعل رائج رہی ہے تو جناب اصلاحی کے لئے اس کے انکار کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا کیونکہ خود آں محترم ہی چند صفحات قبل یہ لکھ چکے ہیں کہ: ’’یہ امر یہاں واضح رہے کہ ایک خلیفہ راشد کے اجتہاد کی دین میں بڑی اہمیت ہے۔‘‘ [2] جب جناب اصلاحی صاحب کے نزدیک کسی خلیفہ راشد کے اجتہاد کی دین میں یہ قدر و قیمت ہے تو ان کی سنتوں کی قدر و قیمت بدرجہا اولی ہونی چاہیے۔ یہی بات آج سے تقریباً سینتیس سال قبل جناب اصلاحی صاحب اپنے ایک مضمون: ’’سنت خلفائے راشدین‘‘ میں بصراحت یوں فرما چکے ہیں: ’’اب میں یہ بتاؤں گا کہ میں خلفائے راشدین کے اس طرح کے طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں، میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں: 1- اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلفائے راشدین کی سنت کو سنت کا درجہ بخشتا ہے اور اسی حیثیت سے مسلمانوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت اور وصیت فرمائی ہے۔ 2- دوسری وجہ یہ ہے کہ اجماع ہمارے ہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفائے راشدین کے عہد میں ملتی ہیں۔ اول تو یہ خیر القرون کے لوگوں کا اجماع ہے جن کی حق طلبی و حق کوشی ہر شبہ سے بالاتر ہے۔ ثانیاً اسی مبارک دور میں عملاً یہ
Flag Counter