شکل اختیار کی جا سکی کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آیا تو اس میں وقت کے اہل علم اور صالحین کی رائیں معلوم کی گئیں اور پھر ایک متفق علیہ بات طے کر کے ایک خلیفہ راشد نے اس کو جاری و نافذ کیا اور سب نے اس پر بغیر کسی اختلاف و اعتراض کے عمل کیا۔
3- تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتداء سے خلفائے راشدین کے تعامل کو ملت میں ایک مستقل شرعی حجت کی حیثیت دی گئی ہے۔ سعید بن مسیّب کی فقہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو ایک اصولی چیز کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح ابراہیم نخعی کی فقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو ایک مستقل جگہ حاصل ہے۔ یہی اعتماد ہر مسلمان کو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے فیصلوں پر ہے۔ اس لحاظ سے دیکھئے تو فقہ مالکی ہو یا فقہ حنفی، ہر ایک کے اندر خلفائے راشدین کے تعامل کو سنت ہی کی حیثیت سے جگہ دی گئی ہے۔
4- چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگرچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا پورا مظاہرہ حضرات خلفائے راشدین کے ہاتھوں ہوا، انہی کے مبارک دور میں اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کا قرآنی وعدہ پورا ہوا اور اسلامی شریعت کے بہت سے احکام کا انطباق زندگی کے معاملات میں عملاً متعین ہوا۔ اس پہلو سے خلفائے راشدین کا دور گویا عہد رسالت ہی کا ایک ضمیمہ ہے اور ہمارے لئے وہ پورا نظام ایک مثالی نظام ہے جو ان کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوا۔ پس اس دور میں جو نظائر قائم ہو چکے ہیں وہ ہمارے لئے دینی حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے لئے ان سے انحراف جائز نہیں ہے۔ اس کلیہ سے اگر کوئی چیز مستثنیٰ ہو سکتی ہے تو صرف وہ چیز ہو سکتی ہے جو مجرد کسی وقتی مصلحت کے تحت انہوں نے اختیار فرمائی ہو۔ [1]
آں محترم اپنی دوسری تصنیف کے ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’سلامتی کا راستہ ہمارے نزدیک یہی ہے کہ کتاب و سنت کی تعبیرات میں سلف و صالحین کی پیروی کی جائے الخ۔‘‘ [2]
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب اپنی ہی ان تحریروں سے انحراف کیوں؟ کیا آں محترم کی نگاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ، خلفائے راشدین کے حق نما فیصلے اور نظائر، صحابہ کرام و تابعین نیز دیگر اسلاف و صلحائے امت کا اجماع و تعمل ’’شرعی حجت‘‘ نہ رہا؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو کیا اسے آں موصوف کے اعتزال
|