اور
’’إن ناسا يقولون ما بال الرجم و إنما في كتاب اللّٰه الجلد ألا قد رجم رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [1]
اور
’’و أيم اللّٰه لولا أن يقول الناس زاد عمر في كتاب اللّٰه لكتبتها‘‘ [2]
قرآن کریم کی وہ آیت رجم جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خطاب میں اشارہ کیا ہے یہ ہے:
’’الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَا زَنَيَا فَارْجُمُوهُمَا الْبَتَّةَ نَكَالًا مِنَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ‘‘ [3]
امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت کے الفاظ ’’الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ‘‘ کے معنی ’’الثيب والثيبة‘‘ بیان کئے ہیں جیسا کہ علامہ ابو الولید الباجی مالکی رحمہ اللہ اور علامہ زرقانی رحمہ اللہ وغیرہما نے لکھا ہے۔ [4] ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’ان الفاظ کی کھلی تفسیر المحصن والمحصنة ہے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ نے ’’صحیح مسلم‘‘ کی شرح میں اس امر کی صراحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم میں آیت رجم کی کتابت، قرأت و تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم بدستور نافذ ہے جیسا کہ اوپر ’’نسخ کی اقسام‘‘ کے تحت بیان کیا جا چکا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا صحابہ کرام کے درمیان مذکورہ خطاب فرمانا اور تمام سامعین کا اس پر سکوت اختیار کئے رہنا بذات خود حد رجم کے ثبوت بلکہ اس پر اجماع صحابہ کی واضح دلیل ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد مسعود میں حد رجم پر بلا توقف عمل کے ثبوت میں چند مزید روایات پیش خدمت ہیں:
’’عن انس بن مالك قال رجم رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم و أبوبكر و عمر و أمرهما سنة‘‘ (رواہ ابو یعلی) ’’حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجم کیا اور ان دونوں کا یہ امر سنت ہے۔‘‘
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’انس بن مالک کی اس روایت کے تمام رجال ثقات ہیں۔‘‘ [5] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں دوران صرف غیر شادی شدہ زنا کے مرتکب ہونے والوں کو ہی کوڑے لگانے اور جلا
|