’’إذا كان الزاني والزانية محصنين يرجمان بإجماع الصحابة ومن بعدهم من علماء النصيحة و أنكره الخوارج لإنكارهم إجماع الصحابة و حجية خبر الآحاد الخ‘‘ [1]
یعنی ’’اگر زانی مرد و عورت شادی شدہ ہوں گے تو انہیں رجم کیا جائے گا جو کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے علمائے نصیحت کے اجماع کے مطابق ہے۔ صرف خوارج نے اس کا انکار کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اجماع صحابہ اور خبر واحد کی حجیت کے منکر ہیں الخ۔‘‘
اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر خلافت راشدہ میں اس حد پر عمل جاری رہنا جمہور کی دلیل ہے۔‘‘ [2]
اس سزا کے متعلق صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی ایک شخص کا بھی کوئی ایسا قول موجود نہیں ہے کہ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہو کہ قرن اول میں کسی فرد کو اس کے ثابت شدہ حکم شرعی ہونے سے انکار یا اس کی مشروعیت میں شک و شبہ تھا۔ اس سنت ثابتہ کی صحت کے اتنے قوی اور متواتر ثبوت موجود ہیں کہ کوئی صاحب علم اس کی مشروعیت سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتا۔ صرف خوارج، بعض معتزلہ [3] اور عصر حاضر میں جناب اصلاحی صاحب نیز ان کے چند ارادت مند حضرات مثلاً جاوید احمد غامدی (مدیر ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور) اور خالد مسعود (مدیر رسالہ ’’تدبر‘‘ لاہور) وغیرہ اس کی مشروعیت کے منکر ہیں لیکن ان کے انکار کی وجہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اس حکم کے ثبوت میں کسی کمزوری کی نشاندہی کر سکے ہوں بلکہ ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں حد رجم کا کہیں ذکر موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ اس سزا کو کتاب اللہ کے خلاف یا صرف عادی مجرموں کے لئے بلا امتیاز احصان خاص سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک زنا کی عام سزا سورہ نور کی آیت جلد (آیت: 2) کے مطابق صرف سو کوڑے ہے، اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مرد و زن کے مابین کوئی تفریق نہیں ہے۔
جہاں تک حد رجم کا قرآن کریم میں موجود نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس بارے میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ایک تاریخی خطاب موجود ہے جس میں آں رضی اللہ عنہ نے بعد کے زمانوں میں حد رجم کے منکرین کے متعلق اپنے خدشہ کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا تھا:
’’إن اللّٰه بعث محمدا صلي اللّٰه عليه وسلم بالحق و أنزل عليه الكتاب فكان فيما أنزل عليه آية الرجم فقرأناها ووعيناها و رجم رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم و رجمنا من بعده و إني خشيت إن طال بالناس الزمان أن يقول قائل ما نجد آية الرجم في كتاب اللّٰه فيضلوا بترك فريضة أنزلها
|