Maktaba Wahhabi

354 - 360
ہوا ہے۔‘‘ کتب احادیث و تاریخ و سیر بتاتی ہیں کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوار خلافت میں متعدد محصن زنا کے مرتکبوں کو رجم کی سزا دی جاتی رہی، پھر بعد کے تمام صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور تمام مسالک کے شیعہ و سنی فقہاء و مجتہدین نے اس سزا کی تشریعی حیثیت پر اجماع و اتفاق کیا ہے، علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’تمام اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ رجم کی سزا صرف شادی شدہ زانیوں پر واجب ہے۔‘‘ [1] ایک اور مقام پر آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اخبار متواترہ کی روشنی میں سزائے رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل دونوں سے ثابت ہے نیز یہ کہ حد رجم پر تمام اصحاب رسول کا اجماع بھی موجود ہے۔‘‘ [2] ابن بطال رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’صحابہ اور ائمہ امصار کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر محصن عمداً، دانستہ اور مختار طریقہ پر زنا کا مرتکب ہو تو اس پر رجم کی سزا ہے صرف خوارج اور بعض معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ ابن عربی نے اہل مغرب کے کچھ طائفوں کے متعلق بھی رجم کا انکار نقل کیا ہے۔‘‘ [3] علامہ ابوبکر محمد بن ابراہیم المنذر (318ھ) اپنی مشہور کتاب ’’الإجماع‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وأجمعوا علي أن الحر إذا تزوج حرة تزويجا صحيحا ووطئها في الفرج أنه محصن يجب عليهما الرجم إذا زنيا‘‘ [4] یعنی ’’اس بات پر اجماع ہے کہ اگر آزاد مرد، آزاد عورت سے نکاح صحیح کرے اور اس کے ساتھ باقاعدہ ہمبستری وقوع پذیر ہو تو وہ محصن ہے پس اگر ایسے شادی شدہ مرد و عورت زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرنا واجب ہے۔‘‘ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أما الرجم فهو مجمع عليه – فإنه قد يثبت بالسنة المتواترة المجمع عليها‘‘ [5] یعنی ’’رجم ایک اجماعی مسئلہ ہے – کیونکہ یہ ایسی سنت متواترہ سے ثابت ہے جس پر سب کا اتفاق ہے۔‘‘ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
Flag Counter