Maktaba Wahhabi

353 - 360
بن عبداللّٰه و ابو سعيد الخدري و ابو هريرة و بريدة الأسلمي و زيد بن خالد في آخرين من الصحابة و بعض هؤلاء الرواة – روي خبر اللخمية والغامدية‘‘ [1] یعنی ’’شادی شدہ کے لئے رجم کے وجوب حد پر جمہور مجتہدین کی دلیل وہ احادیث ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ رجم کے متعلق حضرات ابوبکر، عمر، علی، جابر بن عبداللہ، ابو سعید خدری، ابو ہریرہ، بریدہ اسلمی اور آخرین صحابہ میں سے زید بن خالد رضی اللہ عنہم نے روایت کی ہے۔ ان میں سے بعض رواۃ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک لخمی عورت اور غامدی عورت کے واقعہ کی روایت بھی کی ہے۔‘‘ آگے چل کر آں موصوف مزید فرماتے ہیں: ’’قلنا بل بالخبر المتواتر لما بينا أن الرجم منقول بالتواتر و أيضا قد بينا في أصول الفقه أن تخصيص القرآن بخبر الواحد جائز‘‘ [2] یعنی ’’ہم کہتے ہیں خبر متواتر کے ساتھ (تخصیص قرآن جائز ہے) اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ رجم تواتر کے ساتھ مروی ہے اور ہم اپنی کتاب ’’أصول الفقہ‘‘ میں بھی واضح کر چکے ہیں کہ خبر واحد کے ساتھ عموم قرآن کی تخصیص جائز ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والرجم مما اشتهر عن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم في قصة ماعز والغامدية واليهوديين وعلي ذلك جري الخفاء بعده فبلغ حد التواتر‘‘ [3] یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ماعز، غامدیہ اور یہودیوں کے رجم کے واقعات مشہور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی اس سزا کو جاری رکھا، پس یہ روایات حد تواتر کو پہنچ جاتی ہیں۔‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و أما من كان محصنا من الأحرار فعليه الرجم بالسنة الصحيحة المتواترة‘‘ [4] یعنی ’’اور جو آزاد مرد و عورت میں سے شادی شدہ زانی ہوں ان پر صحیح اور متواتر سنت کے مطابق سنگسار کی سزا ہے۔‘‘ اور جناب حافظ ثناء اللہ پانی پتی (تلمیذ شاہ ولی اللہ دہلوی) فرماتے ہیں: ’’قال علماء الفقه والحديث وقد جري عمل الخلفاء الراشدين بالرجم مبلغ حد التواتر‘‘ [5]یعنی ’’علمائے فقہ و حدیث کا قول ہے کہ خلفائے راشدین کا رجم پر عمل کرنا بھی حد تواتر کو پہنچا
Flag Counter