Maktaba Wahhabi

352 - 360
کے احکام ہیں جو اسلامی حکومت انہی شرائط کے مطابق نافذ کرتی ہے جو شرائط قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ دوسرے قسم کے مجرموں کی سرکوبی کے لئے احکام سورہ مائدہ کی آیات نمبر: 33 اور 34 میں دئیے گئے ہیں۔‘‘ [1] آں محترم مزید فرماتے ہیں: ’’یہ سزا (یعنی سنگسار) ہر قسم کے زانیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف ان زانیوں کے لئے ہے جو معاشرہ کی عزت و ناموس کے لئے خطرہ بن جائیں۔ عام سزا زنا کی وہی ہے جو سورہ نور کی زیر بحث آیت میں مذکور ہے۔ قطع نظر اس سے کہ مرتکب جرم شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔‘‘ [2] یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اس موضوع پر جناب اصلاحی صاحب کی اپنے استاذ (یعنی فراہی صاحب) سے نہ کوئی تفصیلی گفتگو ہوئی تھی اور نہ ہی اس بارے میں انہوں نے اپنی تصانیف میں بصراحت کچھ لکھا ہے جیسا کہ محترم اصلاحی صاحب نے فراہی مکتب فکر سے ہی وابستہ اپنے ایک دیرینہ رفیق ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (مؤسس انجمن خدام القرآن لاہور و امیر تنظیم اسلامی پاکستان) کے روبرو اعتراف کیا ہے۔[3] مگر جناب اصلاحی صاحب کے تلمیذ خاص جناب خالد مسعود صاحب کا دعویٰ ہے کہ جناب فراہی صاحب نے ’‘أحکام الأصول‘‘ میں دکھایاہے کہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز اسلمی کو جو رجم کروایا تھا وہ سورہ مائدہ کی آیت محاربہ سے مستنبط تھا۔‘‘ [4] واللہ أعلم بالصواب۔ یہ بحث احادیث رجم کے انکار سے متعلق مخصوص اصلاحی نظریات پر کسی مفصل تبصرہ کی ہرگز متحمل نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی چاہوں گا کہ آں محترم کے اس انکار کی نوعیت پر مختصراً روشنی ڈال دوں۔ پس جاننا چاہیے کہ اسلامی قانون میں آزاد محصن زانی کے لئے رجم کی سزا کا بیان صراحت کے ساتھ تقریباً چالیس صحابہ سے مروی ہے جس کو بعد کے ہر دور میں کثیر التعداد ثقہ رواۃ نے روایت کیا ہے۔ فخر الدین رازی جیسے نسخ کے شدید منکرین نے بھی روایات رجم کے متواتر ہونے کا اعتراف کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’واحتج الجمهور من المجتهدين علي وجوب رجم المحصن لما ثبت بالتواتر أنه عليه الصلوة والسلام فعل ذلك قال أبوبكر الرازي روي الرجم ابوبكر و عمر و علي و جابر
Flag Counter