’’آیت کے حکم کی عمومیت کا ظاہر تقاضا تو یہ ہے کہ ہر باپ اپنے بیٹے کا اور ہر بیٹا اپنے باپ کا وارث ہو۔‘‘ [1]
--- اب بھلا بتائیے کہ جب [يُوصِيكُمُ اللّٰه فِي أَوْلَادِكُمْ]کہا جائے تو اختلاف مذہب کا ’’کوئی تصور کہاں حائل ہوتا ہے‘‘ کہ اس سے غیر مسلم مراد نہیں ہو سکتا؟ مسلم و غیر مسلم ’’دونوں پر‘‘ اس کا یکساں ’’اطلاق ہونا چاہیے، اس لئے کہ وہ تمام شرائط‘‘ جو وراثت کے ہیں ’’وہ وہاں بھی پائے جاتے ہیں، کوئی قرینہ بھی پہلے سے ایسا موجود نہیں ہے جو یہ بتاتا ہو کہ یہاں ’’غیر مسلم‘‘ کو الگ کر کے اس کو ’’حق وراثت سے محروم کر دیا جائے۔‘‘ پس جناب اصلاحی صاحب کی اس فکر اور تقریر کے مطابق یہ بھی ’’تخصیص‘‘ نہیں بلکہ ’’نسخ‘‘ ہونا چاہیے اور نسخ کے متعلق آں محترم کے نزدیک ’’وہی حکم ہو گا جو بیان کیا جا چکا ہے۔‘‘
یعنی جب تک قرآن کی کسی دوسری آیت سے آیت زیر مطالعہ کا نسخ ثابت نہ ہو کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے، خواہ اس بارے میں کوئی قوی سے قوی تر حتی کہ متواتر سنت ہی کیوں نہ موجود ہو۔
کیا جناب اصلاحی صاحب کے پاس ان کی بیان کردہ تخصیص کی اس مثال پر ان کے ہی نقوش قدم پر چلتے ہوئے ہمارے ان اعتراضات کا کوئی معقول جواب موجود ہے؟ ہو سکتا ہے آں محترم یہ فرمائیں کہ:
’’اس (آیت) کے اندر یہ تخصیص مضمر ہے کہ اختلاف دین کی صورت میں یہ عموم باقی نہیں رہے گا بلکہ یہ چیز توارث میں مانع ہو جائے گی۔ اس مضمر حقیقت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں کھول دیا الخ۔‘‘ [2]
--- تو ہم پوچھیں گے کہ اگر آیت وراثت میں یہ تخصیص مضمر تھی تو آیت: [الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي]میں کیوں یہ تخصیص مضمر نہیں ہو سکتی؟ اگر ایک مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھولی گئی مضمر حقیقت کو بسروچشم تسلیم کیا جاتا ہے تو دوسرے مقام پر انہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھولی گئی مضمر حقیقت سے انکار کا کیا سبب ہے؟
اس تخصیص کو نسخ کا نام دے کر یہاں اس سے انکار کا اصل سبب یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے اپنے استاذ جناب حمید الدین فراہی صاحب کے ذاتی مصحف میں سورہ نور کے حاشیے میں یہ الفاظ درج پائے تھے: ’’رجم تحت مائدہ‘‘ جس سے آں موصوف کو یہ شبہ لاحق ہوا کہ:
’’مجرم دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک تو وہ جن سے چوری یا قتل یا زنا یا قذف کا جرم صادر ہو جاتا ہے لیکن ان کی نوعیت یہ نہیں ہوتی کہ وہ معاشرے کے لئے آفت اور وبال بن جائیں یا حکومت کے لئے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جو اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اور جہتاً بنا کر بھی معاشرے اور حکومت دونوں کے لئے آفت اور خطرہ بن جاتے ہیں۔ پہلی قسم کے مجرموں کے لئے قرآن میں معین حدود اور قصاص
|