Maktaba Wahhabi

348 - 360
تھی۔ اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ کوئی ’’شخص اپنے آپ کو دیانتدار نہیں رکھ سکتا اگر اسے بھوکا رکھا جائے یا باندھ دیا جائے یا مارا جائے۔‘‘ [1] اور چونکہ قحط سالی کے زمانہ میں شدید بھوک کی وبا عام تھی کہ جس سے مجبور ہو کر وہ اونٹنی ذبح کر لی گئی تھی، لہٰذا اس موقع پر آں رضی اللہ عنہ کے پیش نظر حالت اضطرار کا مخصوص فقہی کلیہ: ’’الضرورات تبيح المحظورات‘‘ [2] یعنی ’’ضرورتیں مخطورات کو جائز کر دیتی ہیں‘‘ (کہ جو آیت: [فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللّٰه غَفُورٌ رَّحِيمٌ][3] یعنی ’’جو شخص مجبور ہو جائے اور وہ اس کا خواہشمند اور حد سے تجاوز کرنے والا نہ ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے، بےشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ سے ماخوذ ہے) ہی اس حد کے اسقاط کا محرک بنا تھا۔ اس اسقاط کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ حالت اضطرار میں جو چیز بقدر ضرورت [4] مباح ہو جاتی ہے اس پر حرام کا اطلاق نہیں ہوتا، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما أبيع للضرورة لا يسمي حراما وقت تناوله‘‘ [5] پس مضطر کے لئے جو چیز حرام ہی نہ ہو اس پر حد قائم کرنے کا کیا سوال پیدا ہو سکتا ہے؟ واضح رہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بصورت اکراہ اسقاط حد کی یہ اکیلی مثال نہیں ہے بلکہ شدید پیاس (اکراہ) کی صورت میں اسقاط حد کی ایک اور مثال وہ واقعہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ایسی عورت لائی گئی جسے صحراء میں جب کہ وہ شدید پیاسی تھی ایک چرواہا ملا۔ عورت نے اس سے پانی مانگا۔ اس نے اسے اپنی دینے سے انکار کیا سوائے اس صورت کے کہ وہ اسے اجازت دے کہ وہ اس کے ساتھ بدکاری کرے۔ عورت نے اسے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دیا مگر وہ نہ مانا۔ جب عورت کی قوت برداشت جواب دے چکی تو اس نے اس شخص کو اپنے آپ پر قدرت دے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اضطرار کی اس حالت کی بنا پر اس عورت پر سے حد ساقط کر دی تھی۔‘‘ [6] اسی طرح بھوک کے باعث اکراہ ہونے کی ایک اور مثال حاطب بن ابی بلتعہ کے غلاموں کا واقعہ ہے کہ انہوں نے مزینہ کے ایک شخص کی اونٹنی چرا لی تھی اور اسے ذبح کر لیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب سے کہا کہ ’’اگر مجھے یہ علم نہ ہو جاتا کہ تم انہیں بھوکا رکھتے ہو اور اس بھوک سے مجبور ہو کر انہوں نے اس حرام کام کا ارتکاب کیا ہے تو میں ان کے ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان غلاموں کا ہاتھ نہیں کاٹا اور حاطب سے کہا کہ اب میں تم پر
Flag Counter