کیا جا سکتا ہے کہ جو تخصیص بذریعہ قیاس و اجتہاد کی گئی یا کی جا رہی ہے وہ قرآن کے اصل مفہوم و منشا کے خلاف تو نہیں ہے؟
خلاصہ یہ کہ بذریعہ قیاس و اجتہاد عموم قرآن کی تخصیص کا بطلان واضح ہوا، فالحمدللہ علی ذلک۔
آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب نے حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص کی مثال کے طور پر آیت [وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ]اور اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث: ’’لَا تُقْطَعُ يَدُ السَّارِقِ إلَّا في رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا‘‘ نیز وراثت کے بارے میں سورہ نساء کی آیت: 11، اور حضرت اسامہ کی موانع ارث والی حدیث کو نقل کیا ہے۔ [1]
اس کے بعد اجتہاد سے تخصیص کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حکم عام میں ایک تخصیص اپنے اجتہاد سے بھی کی وہ یہ کہ قحط کے سال میں قطع ید کا حکم ملتوی کر دیا کہ اضطرار کا اندیشہ ہے۔ اس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے جو ہم نے اوپر ظاہر کیا ہے کہ یہ تخصیص ایک مجتہد کے اجتہاد سے بھی ہو سکتی ہے، اگرچہ اس کی حیثیت ایک امر اجتہادی کی ہو گی الخ۔‘‘ [2]
بلاشبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک شخص اپنی اونٹنی کے بارے میں جو ذبح کر لی گئی تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے کر آیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
’’کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ ہم تمہیں دو موٹی تازی اور ترو تازہ دودھ دینے والی اونٹنیاں دے دیں کیونکہ ہم قحط کے زمانہ میں قطع ید کی سزا نہیں دیتے۔‘‘ اس شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیشکش کو قبول کر لیا تھا۔ [3]
لیکن خلافت راشدہ کے اس اکیلے واقعہ کو سورۃ المائدہ کی آیت: 38 کی تخصیص کے لئے بطور دلیل نہیں پیش کیا جا سکتا، کیونکہ:
1- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کبھی اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ وہ بذریعہ اجتہاد سورۃ المائدہ کی محولہ آیت کی تخصیص فرما رہے ہیں۔
2- حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک شدید بھوک اور پیاس ایک طرح کے اکراہ [4] و اضطرار کی کیفیت
|