Maktaba Wahhabi

264 - 360
ایک وہ بھی ہے جس کو خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کر لیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہو گا اور بطور فرض کے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا جھوٹ میں داخل نہیں – لیکن بے غبار اور بے تاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اختیار کیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کر دیا – یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ: ’’أنبت الربيع البقلة‘‘ اس کی معروف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اگانے والا درحقیقت حق تعالیٰ ہے مگر اس کے ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کر دیا گیا اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بڑے بت کی طرف اس فعل کو عملاً اور قولاً منسوب کر دینا جھوٹ ہرگز نہیں – یہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا صرف ایک قسم کا توریہ ہے۔‘‘ [1] اور ’’—اس حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحتاً کی گئی ہے جو شان نبوت و عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی میں جھوٹ نہ تھا یہ توریہ تھا جو ظلم سے بچنے کے لئے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے، تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی ان کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں، اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہو سکیں، سننے والا اس سے ایک مفہوم سمجھے اور بولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کے لئے یہ تدبیر توریہ کی باتفاق فقہاء جائز ہے – توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنی سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں، جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا، یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحتاً مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا، ٹھیک اسی طرح کی توجیہ پہلے دونوں کلاموں میں ہو سکتی ہے، [بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا]کی توجیہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے، اسی طرح [إِنِّي سَقِيمٌ]کا لفظ ہے کیونکہ سقیم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنی میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسی دوسرے معنی کے لحاظ سے إِنِّي سَقِيمٌ فرمایا تھا۔ مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنی میں سمجھا، اور
Flag Counter