ہیں کہ کذب کی اباحت کے متعلق حضرت ابراہیم و یوسف علیہما السلام کے واقعات میں جو کچھ وارد ہے اس سے مراد توریہ و معاریض کا استعمال ہے نہ کہ صریح کذب کا اور اس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے کلمات کو ادا کیا جائے جس سے مخاطب متکلم کے اصل منشا کو سمجھنے کے بجائے وہ مطلب سمجھے جو اصلاً اس کا مقصد نہیں ہے۔ یہ معاریض مباح ہیں، پس یہ تمام وقائع جائز و درست ہیں۔ ان علماء نے حضرت ابراہیم و یوسف علیہما السلام کے واقعات کی معاریض کے طریقہ پر تاویل فرمائی ہے۔‘‘ [1]
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (م 1239ھ) زیر مطالعہ حدیث پر شیعوں کے طعن کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’اس روایت میں لفظ کذب تعریض کے معنی میں ہے کہ بحسب ظاہر جھوٹ معلوم ہو اور بحقیقت سچ ہو جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعیوں میں منقول ہے: ’’العجائز لا يدخلن الجنة و إني حاملك علي ولد ناقة و إن في عين زوجل بياضا‘‘ اور مثل ان کے علی ہذا حضرت امیر رضی اللہ عنہ (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) سے بھی ایسی تعریضیں بہت مروی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ اسی قسم سے تھے۔ اس لئے کہ انہوں نے جو اپنی بیوی کو بخوف ایک جبار کے خواہر بتایا مراد اس سے اخوت اسلامی رکھی ہے۔ اور یہ جو باوصف صحت انی سقیم (یعنی میں روگی ہوں) اس سے بے مزگی اور کدورت روحانی کہ مرض جسمانی سے بڑھ کر ہے ارادہ کی ہے، [بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا](یعنی بلکہ یہ کام اس نے کیا ہے جو ان سب میں بڑا ہے) یہ واسطے حیلے اور کفار کے نہیں ہے بلکہ ایک فرضی طور پر کہا ہے بس اطلاق کذب کا ان امور پر بسب مشاکلت اور مشابہت کے ہے اور یہ بھی بنظر مصلحت ضروری کے ایک جباری سے اپنے آپ کو بچانا تھا، حالانکہ ایسے مواقع پر جہاں اندیشہ مال اور جان اور ناموس کا ہو اگر صریح جھوٹ بھی ہو تو وہ بھی حلال ہے نہ کہ تعریضات۔ وہ جو کفار کو الزام دیا اور بتوں کی عبادت کا دیکھنا گوارا نہ کیا تو یہ سب درکنار الٹا روایات صحیح المضامین کو محل طعن بنانا اور اپنی روایتوں کو صریح دلالت برے برے واقعات پر جو انبیاء اور رسل کی نسبت لکھے ہیں اور کرتے ہیں بھول جانا پرلے درجے کی بے حیائی ہے الخ۔‘‘ [2]
اور جناب مفتی محمد شفیع صاحب ’’معارف القرآن‘‘ میں ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول جھوٹ نہیں بلکہ ایک کنایہ تھا، اس کی تفصیل و تحقیق‘‘ اور ’’حدیث میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت‘‘ کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:
’’—اس کے جواب کے لئے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے
|