فتأمل هذا الموضع الذي اشكل علي الناس وقد ظهر بهذا أن الكذب لا يكون قط إلا قبيحا و إن الذي يحسن و يحب إنما هو التورية وهي صدق وقد يطلق عليه الكذب بالنسبة إلي الإفهام لا إلي العناية‘‘ [1]
یعنی ’’کلام و گفتگو کی دو نسبتیں یا حیثیتیں ہوتی ہیں: 1- متکلم کے قصد و ارادے کے لحاظ سے، 2- سامع کے اعتبار سے، یعنی متکلم سامع کے ذہن میں کیا بات اتارنا چاہتا ہے۔ ان دونوں نسبتوں کے لحاظ سے کلام کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: 1- متکلم اصل واقعہ کے مطابق خبر دے اور اس کی نیت بھی یہی ہو کہ صحیح صورت حال سے مخاطب آگاہ ہو جائے۔ یہ صورت مذکورہ بالا دونوں نسبتوں کے اعتبار سے صدق پر مشتمل ہو گی۔ 2- دوسری صورت یہ ہے کہ خلاف واقعہ خبر دی جائے اور جو متکلم کا مقصود ہے وہ بھی مخاطب پر ظاہر نہ ہونے دیا جائے بلکہ کوئی تیسرا مفہوم مخاطب کے ذہن میں اتارنے کی کوشش کی جائے جو نہ واقع کے بیان کے مطابق ہو اور نہ متکلم کا مطمح نظر ہو، اس صورت کو دونوں نسبتوں کے لحاظ سے کذب (جھوٹ) مانا جائے گا۔ 3- تیسری شکل یہ ہے کہ متکلم کا پیش نظر واقع کے مطابق صحیح خبر دینا ہی مقصود ہوتا ہے، لیکن وہ گفتگو کا اسلوب ایسا اختیار کرتا ہے کہ مخاطب کا ذہن متکلم کے اصل مقصد کو سمجھنے کے بجائے ایسے امر کی طرف منتقل ہو جائے جو متکلم کا منشا نہیں ہے۔ یہ صورت اصل واقعہ کے لحاظ سے صدق ہے لیکن مخاطب کے فہم کے اعتبار سے اس پر کذب کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے اسلوب کلام کو توریہ اور تعریض کہا جاتا ہے۔ اس پہلو کے پیش نظر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ ورنہ اصل واقعہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اس گفتگو میں سچے ہیں۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی خبر کے صدق و کذب کے متعلق نہایت نفیس بحث فرماتے ہوئے تقریباً وہی بات فرمائی ہے جس کی تفصیل علامہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی مندرجہ بالا عبارت میں گزر چکی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’والخبر تارة يكون مطابقا لمخبره كالصدق المعلوم أنه صدق و تارة لا يكون مطابقا لمخبره كالكذب المعلوم أنه كذب وقد تكون المطابقة في عناية المتكلم وقد يكون في إفهام المخاطب و إذا كان اللفظ مطابقا لما عناه المتكلم ولم يطابق إفهام المخاطب فهذا أيضا قد يسمي كذبا وقد لا يسمي ومنه المعاريض لكن يباح للحاجة‘‘ [2]
امام نووی رحمہ اللہ شرح ’’صحیح مسلم‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’بعض علماء مثلاً طبری وغیرہ کا قول ہے کہ کذب کسی بھی بارے میں اصلاً جائز نہیں ہے۔ وہ فرماتے
|