يَهْدِينِي السَّبِيلَ‘‘ ’’یہ وہ شخص ہیں جو میری رہنمائی کرتے ہیں۔‘‘ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جواب سے دنیاوی رہبری مراد لیتے حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مراد آخرت کی رہنمائی تھی۔ کیا زیر مطالعہ حدیث کے منکرین اس جواب کی روشنی میں انہیں ’’کاذب‘‘ کہنے کی جسارت کریں گے؟ حالانکہ آں رضی اللہ عنہ کا لقب ہی ’’الصدیق‘‘ تھا۔ اگر نہیں، تو پھر اس قول کو تعریض پر ہی محمول کرنا پڑے گا، پس اگر ایک صحابئ رسول کے لئے تعریض کا استعمال ممکن ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام نبوت کے پیش نظر ان کے اقوال کو تعریض سے تعبیر کرنا بدرجہا اولی ہے۔
پس معلوم ہوا کہ حدیث زیر مطالعہ میں ’’کذب‘‘ کو تعریض پر اس طرح محمول کرنا کہ ’’سقیم‘‘ سے دو معنی مراد ہیں: جسمانی مریض اور روحانی مریض (اور یہاں دوسرا معنی مراد ہے)، ’’كَبِيرُهُمْ‘‘ سے بھی دو معنی مراد ہیں: بڑا بت اور اللہ تعالیٰ (یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد دوسرے معنی سے ہے) اور ’’اختی‘‘ کے معنی بھی نسبتی اور دینی بہن کے ہیں (یہاں بھی دوسرا معنی مراد ہے) گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعریض و توریہ کے ذریعہ اپنے مخاطبین کو ظاہری معانی میں الجھا دیا اور خود اس کا مخفی معنی مراد لیا – ایک بالکل صحیح اور معقول توجیہ ہے۔ اس سے نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عصمت و نبوت پر کوئی ’’زد‘‘ پڑتی ہے اور نہ ہی ’’کذبات ثلاثہ‘‘ والی روایت، قرآن کی آیت: [إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا]کے خلاف باقی رہتی ہے۔ واضح رہے کہ اس توجیہ میں جناب مودودی صاحب کے اس اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ’’رہا‘‘ [إِنِّي سَقِيمٌ]والا واقعہ تو اس کا جھوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام فی الواقع اس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی بھی شکایت ان کو نہ تھی۔‘‘
اس تعریض و توریہ کے متعلق حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الكلام له نسبتان نسبة إلي المتكلم و قصده و إرادته و نسبة إلي السامع و إفهام المتكلم اياه مضمونه فإذا أخبر المتكلم بخبر مطابق للواقع و قصد إفهام المخاطب إياه صدق بالنسبتين فإن المتكلم إن قصد الواقع و قصد إفهام المخاطب فهو صدق من الجهتين و إن قصد خلاف الواقع و قصد مع ذلك إفهام المخاطب خلاف ما قصد بل معني ثالثا لا هو الواقع ولا هو المراد فهو كذب من الجهتين بالنسبتين معاًوان قصد معني مطابقا صحيحا وقصد مع ذلك التعمية علي المخاطب و إفهامه خلاف ما قصده فهو صدق بالسنبة إلي قصده كذب بالنسبة إلي إفهامه ومن هذا الباب التورية والمعاريض و بهذا أطلق عليها ابراهيم الخليل عليه السلام اسم الكذب مع أنه الصادق في خبره ولم يخبر إلا صدقا
|