Maktaba Wahhabi

260 - 360
نے اس جملہ میں کہ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت شکنی کے اس فعل کو بڑے بت کی طرف جو منسوب کیا ہے اس سے ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا۔‘‘ اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آں علیہ السلام نے اگرچہ ایک خلاف واقعہ بات کہی تھی لیکن ان کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا۔ دراصل جناب مودودی صاحب یا دیگر منکرین نے حدیث میں وارد لفظ ’’کذب‘‘ کو شرع میں محرم ’’جھوٹ‘‘ پر محمول کر لیا ہے، حالانکہ عربی لغت میں کذب جھوٹ سے کہیں زیادہ وسیع تر مفہوم کا حامل ہے۔ مثلاً ’’كذبته نفسه‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’اسے اس کے نفس نے ترغیب دلائی۔‘‘ جوہری اور فراء کے قول کے مطابق کذب، بمعنی وجوب کے بھی ہیں۔ [1] کبھی کذب، لزوم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً یہ بولا جاتا ہے کہ ’’كذب عليكم الحج والعمرة‘‘ یعنی ’’تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا۔‘‘ اسی طرح کذب غلطی اور خطا کے لئے بھی بولا جاتا ہے، مثلاً: ’’كذب ابو محمد‘‘ یعنی ’’(صحابی رسول) ابو محمد (سعود بن زید رضی اللہ عنہ) نے غلطی کی۔‘‘ اجتہادی خطا پر بھی کذب کا اطلاق کیا جاتا ہے جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تابعی نوف بقالی کے متعلق فرمایا تھا ’’كذب عدو اللّٰه‘‘ یعنی ’’اللہ کے دشمن (نوف) نے غلطی کی۔‘‘ اسی طرح عربی شاعر ذوالرمہ کا قول ہے: ’’ما في سماعه كذب‘‘ یعنی ’’اس کے سماع میں غلطی نہیں ہے۔‘‘ کبھی کذب کا اطلاق تعریض و توریہ پر بھی ہوتا ہے یعنی جب متکلم خبر واقعہ اور مخبر عنہ کے مطابق دے لیکن امر واقعہ اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہے۔ توریہ و تعریض حقیقت میں سچ ہوتا ہے لیکن سامع کی فہم کے اعتبار سے اسے کذب بھی کہا جا سکتا ہے۔ علامہ راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’والتعريض كلام له وجهان من صدق و كذب أو ظاهر و باطن، قال: [فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ﴾‘‘ یعنی ’’تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے جس کے دو پہلو ہوتے ہیں: صدق و کذب یا ظاہر و باطن جیسے [فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ]سے واضح ہے۔‘‘ [2] علامہ ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إن الكذب ضد الصدق و إن افترقا من حيث النية والقصد لأن الكاذب يعلم أن ما يقوله كذب والمخطئ لا يعلم‘‘ [3] اس قسم کے توریہ کی مثالیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات وغیرہ میں بھی ملتی ہیں، چنانچہ مروی ہے: ’’الْحَرْبُ خُدْعَةٌ‘‘[4]یعنی ’’جنگ میں دھوکہ درست ہے۔‘‘ اسی طرح سفر ہجرت میں جب کسی شخص نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا کہ ’’یہ آپ کے رفیق کون ہیں؟‘‘ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا تھا: ’’الرَّجُلُ
Flag Counter