Maktaba Wahhabi

265 - 360
اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ کی ذات کے لئے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھا ورنہ گناہ کا کام اللہ کے لئے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہو سکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہو سکتا ہے جبکہ وہ حقیقتاً کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہو سکتے ہوں، ایک کذب اور دوسرا صحیح ہو۔‘‘ [1] اوپر واضح ہو چکا ہے کہ کذب بہرحال قبیح ہے لیکن بوقت ضرورت توریہ و تعریض قابل قبول ہو سکتا ہے کیونکہ توریہ اصل واقعہ کے اعتبار سے صدق پر مشتمل ہوتا ہے، اس پر کذب کا اطلاق اس لحاظ سے کر دیا جاتا ہے کہ واقعہ کے مطابق اصل مقصود مخاطب کو باور کرانا مطلوب نہیں ہوتا۔ تعریضات کی راہ زندگی کا ایسا لازمہ ہے کہ اس سے بچنا سخت دشوار ہے، چنانچہ علم بدیع کی اصطلاح معاریض فصحاء و بلغاء کے کلام میں بکثرت رائج ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ کے متعلق بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ جھوٹ ہر حال میں حرام نہیں ہوتا بلکہ بعض مخصوص حالات میں شرع نے ضرورتاً اس کی اجازت بھی دی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ‘‘[2]’’وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لئے جھوٹ بولے۔‘‘ بعض دوسری روایات میں مذکور ہے: ’’لَا يحلُّ الكذبُ إلَّا في ثلاثٍ كذب الرجل امرأتَه ليرضيَها والكذبُ في الحربِ والكذبُ ليصلِحَ بينَ النَّاسِ‘‘[3]یعنی ’’جھوٹ بولنا صرف تین صورتوں میں جائز ہے: (1) جبکہ مرد اپنی ناراض بیوی کو رضا مند کرنے کے لئے جھوٹ بولے، (2) بحالت جنگ جھوٹ بولا جائے، اور (3) لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لئے جھوٹ بولا جائے۔‘‘ لہٰذا اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان تینوں وقائع کو کذب پر محمول کیا جائے تو بلاشبہ یہ کذبات، کذب مباح کی قبیل ہی سے ہوں گے۔ علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ کا رجحان اسی طرف ہے۔ بعض روایات میں تو اس مصلحت کی تصریح بھی موجود ہے کہ ’’ما منها كذبة إلا ما حصل بها عن دين الله‘‘ یعنی ’’ابراہیم علیہ السلام کے ان تینوں جھوٹ میں سے ہر ایک صرف اللہ تعالیٰ کے دین کی مدافعت و حمایت کے لئے ہی بولا گیا ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ شرح ’’صحیح مسلم‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’قاضی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ان صورتوں میں کذب کے جواز کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے، البتہ کذب مباح سے مراد کی تعیین میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ ایک گروہ جو اس کے اطلاق کا قائل ہے، اس نے
Flag Counter